قبر کی مٹی کھانے اور اس پر صبر آنے کی حقیقت ،بلاعذر میت کو قبر سے نکال کرکسی دوسری جگہ منتقل کرنا

Darul Ifta mix

قبر کی مٹی کھانے اور اس پر صبر آنے کی حقیقت ،بلاعذر میت کو قبر سے نکال کرکسی دوسری جگہ منتقل کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ

۱۔ ایک شخص کے انتقال کے بعد اس کی ماں کو صبر نہیں آرہا ،وہ روتی جارہی ہے، توقبر کی مٹی پانی میں گھول کر پینا کیسا ہے،چونکہ کسی نے کہا ہے ، کہ اس طرح   کرنے سے صبر آجاتا ہے،تو اس  کی حقیقت  کیا ہے؟

۲۔اور اس کو کراچی کے قبرستان میں دفن کیا گیا ہے اور اب پتہ چلا کہ قبرستان کی انتظامیہ کچھ سالوں کے بعد قبر کھول کر اس میں دوسرا مردہ دفن کردیتے ہیں،تو اس شخص کی لاش اس قبر سے نکال کر کسی اور جگہ دفن کرنا کیسا ہے ،شریعت کیا حکم دیتی ہے۔

جواب 

۱۔مٹی کھانا مکروہ ہے ،خواہ قبر کی ہو یا کوئی اور مٹی ،نیز قبر کی مٹی کھا نے سے صبر آنے کی بات من گھڑت  ہے ،شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ، مرحوم کی والدہ کو ویسے تسلی دی جائے ،قرآن و سنت میں مذکور صبر کے فضائل اسے باربا ر سنائے جائیں ،امید ہے کہ ان کو صبر آجائے گا۔

۲۔میت کو دفن کرنے  کے بعد بغیر کسی عذر کے دوبارہ نکالناجائز نہیں،نیز اس قبر میں دوسرے  مردے کو دفن کرنا کوئی ایسا عذر نہیں ہے ،جس کی وجہ سے مردے کو قبر سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا جائے  ۔

لما في البزازية:

"ويكره أكل الطين لأنه تشبه بفرعون".(كتاب الكراهية،الفصل الخامس:في الأكل ،3/207،ط:دار الفكر).

وفي البحر :

 "وأكل الطين مكروه". (كتاب الكراهية،فصل في الأكل والشرب،8/338،ط:رشيدية).

وفي سنن أبي داود:

"حدثنا محمد بن الصباح البزاز حدثنا إبراهيم بن سعد ح وحدثنا محمد بن عيسى حدثنا عبد الله بن جعفر المخرمى وإبراهيم بن سعد عن سعد بن إبراهيم عن القاسم بن محمد عن عائشة رضى الله عنها قالت قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد ». قال ابن عيسى قال النبى -صلى الله عليه وسلم- « من صنع أمرا على غير أمرنا فهو رد »".(كتاب السنة ،باب في لزوم السنة ،651،ط:دار السلام للنشر و التوزيع).

 وفي فتح القدير:

 "ولا ينبش بعد إهالة التراب لمدة طويلة ولا قصيرة إلا لعذر.قال المصنف في التجنيس: والعذر أن الأرض مغصوبة أو يأخذها شفيع، ولذا لم يحول كثير من الصحابة وقد دفنوا بأرض الحرب إذ لا عذر.... ومن الأعذار أن يسقط في اللحد مال ثوب أو درهم لأحد".(كتاب الصلاة ،فصل في الدفن،2/149،ط:دار الكتب العلمية).

وفي رد المحتار :

"قوله: (ولا بأس بنقله قبل دفنه) قيل مطلقا، وقيل إلى ما دون مدة السفر وقيده محمد بقدر ميل أو ميلين، لان مقابر البلد ربما بلغت هذه المسافة فيكره فيما زاد.قال في النهر عن عقد عقد الفرائد: وهو الظاهر اه.وأما نقله بعد دفنه فلا مطلقا".(كتاب الصلاة ،مطلب :في دفن الميت،3/173،ط:رشيدية).

وفي البحر :

"قوله ( ولا يخرج من القبر إن أن تكون الأرض مغصوبة ) أي بعدما أهيل التراب عليه لا يجوز إخراجه لغير ضرورة للنهي الوارد عن نبشه وصرحوا بحرمته". (كتاب الجنائز،فصل السلطان أحق بصلاته،2/341،ط:رشيدية).

 وفي بدائع الصنائع:

  "وإن أهيل عليه التراب ترك ذلك ؛ لأن النبش حرام".(كتاب الصلاة،فصل في سنة الدفن،2/357،ط:رشيدية) فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 172/238,239