کیا فرماتے ہیں علمائے حق مذکورہ مسئلہ کے حوالے سے کہ اگر کسی مرد یا عورت پر قضاء روزے ہوں اور اس کو یقین یا ظن غالب ہے کہ ضعف یا بیماری کی وجہ سے میں یہ روزے رکھ نہیں سکتا ، تو کیا وہ زندگی میں اپنے روزے کا فدیہ دے سکتا ہے؟ او راگر وہ فدیہ دینے کے بعد تندرست ہو گیا تو پھر ادا کردہ فدیہ کا کیا حکم ہے؟ کیا اس فدیہ کی وجہ سے روزے ذمے سے ساقط ہو جائیں گے یا فدیہ صدقہ نافلہ بن جائے گا اور دوبارہ اس کے لیے قضاء ضروری ہے؟ تفصیلی اوراطمینان بخش جواب عنایت فرمائیں، اس لیے کہ بعض علاقوں میں اس مسئلے میں بہت سارے لوگ مبتلا ہیں۔
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں روزوں کے بدلے فدیہ دینے کی رخصت ایسے شخص کے لیے ہے جو بڑھاپے کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، یا ایسے دائمی مرض میں مبتلا ہے کہ روزہ رکھنے سے عاجز ہے، البتہ اگر ایسے آدمی کو فدیہ کی ادائیگی کے بعد روزہ رکھنے پر قدرت حاصل ہو گئی، تو سابقہ تمام روزوں کی قضا کرے گا اور فدیہ صدقہ نافلہ بن جائے گا، لہٰذا جو شخص عارضی مریض ہے، اگر اسے غالب گمان ہے، یا دین دار وماہر ڈاکٹر کی رائے کے مطابق روزہ رکھنااس کے لیے نقصان دہ ہے، یا مرض بڑھ جائے گا، یا مریض شدت ِ مرض کی وجہ سے فی الحال روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، تو اسے افطار کی اجازت ہے، صحت یاب ہونے کے بعد روزہ کی قضا ہی کرے گا، فدیہ دینا باطل ہو گا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی