کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ محرّم الحرام میں شادی کرنا مکروہ، ناجائز ،یا حرام ہے؟ اور اگر ان میں سے کوئی ایک صورت بھی ہے تو وہ کس بناء پر ہے؟ نیز کیا محرّم الحرام میں شادی کرنا جائز ہے، جب کہ سائل کی معلومات کے مطابق حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شادی نبی مکرّم صلی اﷲ علیہ وسلم کی لخت جگر حضرت فاطمہ الزاہر رضی اﷲ عنہا سے ماہ محرم میں ہوئی تھی،مندرجہ بالا مسئلہ کے بارے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں بالتفصیل جواب عنایت فرما کر عند اﷲ ماجور ہوں۔
محرّم الحرام میں شادی کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ افضل ہے، کیوں کہ یہ فضیلت وعظمت کا مہینہ ہے ،تواس میں کی گئی عبادت بھی فضیلت والی ہو گی، جیسے شہادت ایک عبادت ہے، اس ماہ مبارک میں حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت ہوئی وہ زیادہ فضیلت والی تھی؛لہٰذا اس ماہ مبارک میں اگر نکاح بھی کیا جائے تو وہ بھی ایک مبارک ماہ میں ہونے کی وجہ سے زیادہ ثواب کا حامل ہو گا، اس ماہ مبارک کو نحوست کا مہینہ سمجھنا دشمنانِ اسلام کا نظریہ ہے، جو شہادت جیسی فضیلت کو منحوس سمجھتے ہیں ان کے پروپیگنڈے سے مسلمانوں کے ذہن میں بھی یہ عقیدہ راسخ ہو گیا ہے کہ اس مہینہ میں کی گئی خوشی کی تقریب منحوس ثابت ہو گی، اس نظریہ کی تردید میں اپنی حیثیت کے بقدر کام کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔
'' أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ .... عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ تَزَوَّجَنِی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی شَوَّالٍ وَأُدْخِلْتُ عَلَیْہِ فِی شَوَّالٍ فَأَیُّ نِسَائِہِ کَانَ أَحْظَی عندہ منی.'' (سنن النسائی: کتاب النکاح، البناء فی الشوال٩١/٢، قدیمی)
''عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا ہَامَۃَ وَلَا صَفَرَ''. (بخاری:٢/٨٥٧، باب لاھامۃ، قدیمی).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی