کیا فرماتے ہیں علماء کرام او رمفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے کہ ایک آدمی کا رہائشی مکان ہے، دیہات میں زمین محدود اس کی ملکیت نہیں ہے، زمین کا جو اصل مالک ہے قبائلی سردار اس نے سب لوگوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اس زمین میں اپنے لیے رہائشی مکان بنالیں ،اب لوگوں نے اپنی مرضی سے گھر، اصطبل بنا لیے ہیں، اب آپس میں ان گھروں، اصطبلوں کی جو کہ بغیر رہائشی منصوبے اور بے ترتیب بنائیں گئے ہیں ان میں تنازع کی صورت میں ہر گھر اور اصطبل کی حریم کیا ہو گی، قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل جواب سے نوازیں۔
واضح رہے کہ ”حریم“ ان تعمیر شدہ مکانات اور اصطبل وغیرہ کے لیے ہوتا ہے جن کو ایسی غیر آباد زمین پر تعمیر کیا گیا ہو جو کسی کی ملکیت نہ ہو، ایسی زمینوں کو فقہاء کرام کی اصطلاح میں ”موات“ اور ان کے آباد کرنے کو ”احیاء الموات“ کہا جاتا ہے، غیر کی ملک میں تعمیر شدہ مکانات اور اصطبل وغیرہ میں حریم کا حق حاصل نہیں ہوتا، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ہر ایک کو اپنے مخصوص حصّے میں تصرّف کا حق ہو گا، تنازع کی صورت میں دوسرے سے حریم کا مطالبہ دُرست نہیں ہو گا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی