کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے کے بارے میں کہ شادی میں لڑکی سے جو وکالت لی جاتی ہے، وہ غیر محرم لیتے ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ محرم کی موجودگی میں غیر محرم کی وکالت کا کیا حکم ہے؟ اس سے نکاح پر کوئی اثر پڑے گا یانہیں؟ اور وکالت کے گواہوں میں بھی اسی طرح غیر محرم مرد مقرر کرنا کیسا ہے؟
نیز یہ بھی واضح فرمادیں کہ غیر محرم جب وکالت لیتا ہے اس وقت لڑکی کا مسکرانا یا خاموش رہنا علامت ِ رضا مندی قرار دیا جائے گایا نہیں؟
واضح رہے کہ محرم اور ولی کے ہوتے ہوئے غیر محرم کا لڑکی کے پاس جانا ناجائز ہے، البتہ غیر محرم وکیل بن کر اپنی وکالت پر گواہ مقرر کرکے غیر محرم لڑکی کا نکاح کرواتا ہے، تو نکاح صحیح ہو گا، اس سے نکاح پرکوئی اثر نہیں پڑے گا، لیکن بے پردگی کی وجہ سے یہ معاملہ کراہت سے خالی نہ ہوگا۔
نیز غیر محرم جب وکالت لیتا ہے تو آیا اس وقت لڑکی کا مسکرانا یا خاموش رہنا رضا مندی شمار ہو گا یا نہیں؟
تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس غیر محرم کو لڑکی کے ولی نے وکیل بنایا ہے، تو لڑکی کا مسکرانا یا خاموش رہنا رضامندی شمار ہو گا، لیکن اگر وہ نکاح خواں یا اپنی طرف سے وکیل بنا ہے تو اس صورت میں لڑکی کا مسکرانا یا خاموش رہنا رضا مندی شمار نہ ہو گا، بلکہ اس کے لیے صریح رضا مندی ضروری ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی