کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک سرکاری اسکول کا استاد پرائیویٹ اسکول میں ڈیوٹی کے لیے مقرر کردیا گیا ہے، جوکہ محکمہ ایجوکیشن کے افسران بالانے کیا ہے اور وہ افسران محکمے میں ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں، لیکن تبادلہ ضرورت یا مدد کے تحت ہوا ہے، جب کہ یہ سب قانونی نہیں ہے(محکمہ ایجوکیشن کا قانون نہیں ہے)، غیر قانونی ہے، کیا یہ تبادلہ شرعا درست ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ محکمہ ایجوکیشن کا قانون نہ ہونے کی وجہ سے افسران بالا کا سرکاری استاد کا تبادلہ مدرسے کے اسکول میں کرنا جائز نہیں۔لما في البحر:
’’(والخاص یستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ وإن لم یعمل کمن استوجر شہرا للخدمۃ أو لرعي الغنم) یعني الأجیر الخاص یستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ عمل أو لم یعمل‘‘.(کتاب الإجارۃ، باب ضمان الأجیر: ٨/ ٥٢: رشیدیۃ)
وفي الہدایۃ:
’’قال: والأجیر الخاص الذي یستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ وإن لم یعمل کمن استوجر شہرا للخدمۃ أو لرعي الغنم، وإنما سمي أجیر وحد لأنہ لا یمکنہ أن یعمل لغیرہ لأن منافعہ في المدۃ صارت مستحقۃ لہ والأجر مقابل بالمنافع ولہذا یبقی الأجر مستحقا وإن نقص العمل‘‘.(کتاب الإجارۃ، باب ضمان الأجیر: ٦/ ٣١٦: مکتبۃ البشری).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:173/100