غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم

Darul Ifta mix

غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم

سوال

 کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہمیں نے اپنی بیوی کو جو میرے والد صاحب کے ساتھ بد زبانی اور بد کلامی کر رہی تھی، تو میں نے اس کو کہا کہ "طلاق دی”، اس کے بعد میں نے کہا کہ” تم چلی جاؤ”،میرے والد صاحب نے مجھے میری جگہ سے ہٹا کر کرسی پر بٹھا دیا او رکہا کہ تم چپ ہو جاؤ، مگر میری بیوی مزید غصے میں بولی کہ دو دفعہ مزید طلاق دو گے تو جاؤں گی، مگر میں خاموش سنتا رہا، میں نے کچھ بھی نہیں کہا، مگر میری بیوی غصہ میں میرے گھر والوں، میرے والدین اور بہنوں کو گالم گلوچ کرتی رہی، میں جب بھی چپ رہا ،مگر جب میری بیوی نے میرے والد صاحب کے اوپر ہاتھ اٹھایا، تو مجھے غصہ آیا او رمیں اپنے قابو سے باہر ہو گیا اور اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھا، میں نے اپنی بیوی کو مزید کتنی طلاقیں دیں ؟ مجھے خود بھی پتا نہیں ،میں اپنے ہوش وحواس میں ہی نہیں تھا کہ دو طلاقیں مزیدد یں یا تین یاچار ؟ چوں کہ میں اپنے حواس میں ہی نہیں تھا، کیا میری طلاقیں واقع ہو گئی ہیں یا نہیں؟ نیز پہلی طلاق اور مزید دی گئی لا تعداد طلاقوں کے درمیان آدھے گھنٹے کا وقفہ تھا ،میں نے انٹرنیٹ پر اس بارے میں بہت سے مفتیوں کا فتوی سنا ہے، ان کے حساب سے میں اپنے حواس میں نہیں تھا اس لیے طلاق واقع نہیں ہوئی ، مہربانی فرما کر میری درست اور مستند راہ نمائی فرمائیں، آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے اپنا فتوی تحریری طور پر دستخط کے ساتھ دے دیں، آپ کی مہربانی ہو گی۔

جواب

واضح رہے کہ طلاق جس طرح رضا مندی کی حالت میں واقع ہوتی ہے ،غصے کی حالت میں بھی واقع ہو جاتی ہے، البتہ اگر غصہ اس درجے کا ہو جائے کہ ہوش مختل ہو کر ایسے افعال وحرکات کا صدور ہونے لگے کہ اس کو پتہ نہ رہے کہ کیا کہہ رہا ہے یا کیا کر رہا ہے اور عقل اتنی مجبور وبے بس ہو جائے کہ قابو نہ پاسکے ،تو ایسا شخص مدہوش ہے، اس کی اس حالت میں دی گئی طلاق واقع نہ ہوگی، اس کی اس حالت کا اندازہ اس کے اس وقت کے دوسرے اقوال وافعال سے کیا جاسکے گا، محض اپنے قابو سے باہر ہونا اس کے لیے کافی نہیں،مگر ساتھ ہی مذکورہ شخص کے دوسرے اقوال وافعال بتلا رہے ہیں کہ نہ حواس معطل ہوئے تھے، نہ عقل زائل ہوئی تھی، لہٰذا اس شخص پر مدہوش کا حکم نہیں لگایا جاسکتا، پس صورت ِ مسئولہ میں آپ کا اپنی بیگم صاحبہ کو کہنا کہ: "طلاق دی” اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی تھی، لیکن اس کے بعد پھر لا تعداد مرتبہ غصے کی حالت میں کہنا کہ: "جاؤ !طلاق دی” اس سے مزید دو طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، لہٰذا مذکورہ خاتون پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، حلالہ شرعیہ کے بغیر تجدید نکاح نہیں ہوسکتا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 157/196