کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کسی آدمی نے غسلِ جنابت میں نجاست والی جگہ دھونے کے بعد تین مرتبہ منہ بھر کر کلی کی، پھر ناک کی غلاظت چھڑانے کے بعد تین مرتبہ ناک کی کچی ہڈی تک پانی پہنچایا، اس کے بعد اس نے دو سے تین پانی کے لوٹے بدن پر بہائے، جس سے مکمل بدن ترنہیں ہوا، بلکہ کچھ حصہ بدن کا ابھی خشک ہے، اور اسی دوران اس کے بدن کے کسی مقام سے خون نکل آیا، یا ریح خارج ہوئی، یا پیشاب کا قطرہ نکل آیا، تو کیا از سرِ نو منہ بھر کر کلی کرنا اور ناک کی کچی ہڈی تک پانی پہنچانا ضروری ہے؟ یا پھر اس سے آگے اپنا غسل مکمل کرلے، تو کیا شرعی نقطہ نظر سے اس کا غسل درست ہوگایا نہیں؟ فقہ حنفی کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
صورتِ مسئولہ میں غسل کے دوران اگر انسان کے بدن کی کسی بھی جگہ سے خون نکل آیا، یا ہوا خارج ہوئی، یا پیشاب کا قطرہ نکل آیا، تو از سرِ نو منہ بھر کر کلی کرنا، اور ناک کی کچی ہڈی تک پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے، بلکہ اپنے پورے جسم پر پانی بہانے سے اس کا غسل درست ہوجائے گا، البتہ اگر وضو کے اعضاء پر دوبارہ پانی نہیں بہایا، تو غسل کے بعد دوبارہ وضو کرنا لازم ہوگا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی