کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک جامع مسجد ہے،جہاں لوگ نماز ادا کرتے ہیں،اس مسجد کے ساتھ ایک میدان ہے،جہاں عید اور جنازہ کی نماز ادا کرتے ہیں،اب مسجد کے سامنے ایک جگہ مسجد کے ساتھ ملا کر اضافہ کیا گیا ہے،جہاں میت رکھ کر امام کھڑا ہوتا ہے،اور مقتدی مسجد کے اندر نماز جنازہ ادا کرتے ہیں،اس حالت میں بعض لوگ نماز مکروہ ہونے کی بات بولتے ہیں،قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ واضح رہے کہ اب عید کی نماز بھی مسجد میں ادا کر رہے ہیں،مسجد کے سامنے مسجد کا میدان رکھنے کے باوجود اس حالات میں جنازہ اور عید کی نماز صحیح ہے، یا نہیں ؟ دلیل کے ساتھ جواب جاننا چاہتے ہیں ۔
صورت مسئولہ میں جس جگہ کو مسجد کے ساتھ ملا کر اضافہ کیا گیا ہے، اگر یہ اضافہ بہ نیت مسجد کے ہو(اس حصے کو بھی مسجد بنانا ہو)،تو اس جگہ پر میت رکھ کر نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے، البتہ اگر اس جگہ کا مسجد کی نیت سے اضافہ نہ کیا گیا ہو،بلکہ اس جگہ پر بچوں کو پڑھانے کے لیے یا نمازِجنازہ وغیرہ کی نیت سے اضافہ کیا گیا ہو، تو اس جگہ پر میت رکھ کر امام صاحب اور چند افراد کھڑے ہوجائیں،باقی مقتدی مسجد میں کھڑے ہو کر نمازِ جنازہ ادا کرلیں،تو امام اور وہ مقتدی جو مسجد سے باہر کھڑے ہیں ان کی نماز بلاکراہت درست ہوگی،جبکہ وہ مقتدی جو مسجد کے اندر کھڑے ہیں ان کی نماز کراہت کے ساتھ ادا ہوجائے گی،نیز عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھنا سنت ہے،البتہ مسجد میں پڑھ لی جائے ،تو ادا ہوجائے گی۔
لما في التنویر مع الدر:
(وكرهت تحريما) وقيل:(تنزيها في مسجد جماعة هو) أي الميت (فيه) وحده أو مع القوم.
(کتاب الصلاة،باب الجنائز:2/224،ط:سعید)
وفي حاشیة إبن عابدین:
قوله:(وقيل:تنزيها)......فرجح القول الأول لإطلاق المنع في قول محمد في موطئه:لا يصلى على جنازة في مسجد.
(کتاب الصلاة،باب الجنائز:2/224،ط:سعید).
وفي الحلبي الکبیر:
وتکره الصلوٰة علی الجنازة في مسجد عندنا.(کتاب الصلاة،فصل:في الجنائز،الرابع في الصلاةعلیه، ص:588،ط:سهیل اکیدمي)
وفي صحیح البخاري:
عن أبي سعيد الخدري قال:كان رسول الله-صلى الله عليه و سلم-يخرج يوم الفطر والأضحى إلى المصلى فأول شييء يبدأ به الصلاة ثم ينصرف.(کتاب العیدین،باب الخروج إلی المصلیٰ:1/131،ط:قدیمي)
وفي فتح الباري:
وفيه الخروج إلى المصلى في العيد وإن وسعهم المسجد الجامع.
(کتاب العیدین،باب الخروج إلی المصلیٰ....إلخ:2/572،ط:قدیمي).
وفي البحر:
لو صلى العيد في الجامع ولم يتوجه إلى المصلى فقد ترك السنة.(کتاب الصلاة،باب العیدین:2/278،ط:رشیدیة).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 172/111