کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ عظام ان مسائل کے ذیل میں کہ مذکورہ حالات میں ،میں زکوٰۃ لے سکتی ہوں؟
میرے چار بچے ہیں، بارہ سال سے یہ حال ہےکہ گھر ساس سے الگ ہوگیا ہے،گیارہ سال کرائے کے گھر میں رہے اب ایک سال سے سسر کے ذاتی گھر میں رہ رہے ہیں،انہوں نے ہمیں رہنے کے لیے دیا ہے، شوہر کبھی قرضہ لے کر اپنا کام کرتے ہیں جب کاروبار ٹھپ ہوجاتا ہے،تو سسر کے پاس چلے جاتے ہیں ان کی دکان پر کام کرنے کے لیے،پھر ان کے ساتھ سیٹنگ نہیں بنتی تو پھر قرضہ لے کر اپنا کام کرنے لگ جاتے ہیں،ہمارے گھریلو حالات تنگی میں ہی چلتے رہتے ہیں،کبھی سامان ڈھنگ سے لے آتے ہیں، کبھی روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے ہیں۔
میرے پاس شادی میں آنے جانے کے لیے میرے ماں باپ نے اور ساس نے کچھ جوڑے بنا کر دیےہوئے ہیں،تو کیا قیمتی جوڑوں کی موجودگی میں اور گھر میں فریج ،واشنگ مشین کی موجودگی میں ،میں زکوٰۃ کی مستحق ہوں؟
۱۔۔ جو شخص مقدارِ نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی نقد قیمت کا مالک بھی نہ ہو اور اس کے پاس ضرورت سے زائد اس مالیت کی چیز بھی نہ ہو)کا مالک نہ ہو وہ مستحق زکوٰۃ ہے،چنانچہ جو مرد یا عورت مالکِ نصاب نہ ہو ،اس کے لیے زکوٰۃ وغیرہ لینا درست ہے، مگر اپنے والدین ،دادا، دادی،نانا، نانی ،شوہر ،بیوی کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی،البتہ ضرورت کی چیزوں میں داخل اشیاء مثلاً:(کپڑے،گھر کا سامان وغیرہ)زکوٰۃ لینے سے مانع نہیں ہوں گے،نیز اگر تنگی سے گزرِ اوقات ہوتے ہیں تو اس صورت میں زکوٰۃ لی جاسکتی ہے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں ذکر کردہ تفصیل اگر مبنی بر حقیقت ہے ،تو مذکورہ حالات میں آپ کے لیے زکوٰۃ لینا جائز ہے، نیز زکوٰۃ کی رقم کی مالک بننے کے بعد اگر شوہر کو زکوٰۃ کی رقم سے کھلایا جائے،تو اس میں حرج نہیں اسی طرح بچوں کو زکوٰۃ لے کر کھلا سکتی ہیں، بشرطیکہ جب تک آپ مستحق زکوٰۃ ہیں۔
۲۔۔ اس کے علاوہ آپ نے جو سونا اپنے شوہر کو دیا تھا،اب وہ سونا واپس کرنے سے انکار کررہا ہے اور اس کے ملنے امید نہ ہونے کی وجہ سے آپ نصاب کی مالک نہیں،لہٰذا زکوٰۃ لینے میں حرج نہیں۔
۳۔۔ زکوٰۃ لینے کے لیے شوہر کو بتانا ضروری نہیں، اُن کو بتائے بغیر بھی آپ زکوٰۃ لے سکتی ہیں،تاہم چونکہ آپ مستحق ہیں اس لیے زکوٰۃ لینے کی گنجائش ہے، لیکن آپ کی ضروریات بھی(اگرچہ تنگی کے ساتھ)پوری ہورہی ہیں ،اس لیے زکوٰۃ مانگنا آپ کے لیے درست نہیں،البتہ اگر آپ کو کوئی از خود زکوٰۃ دے دے تو لینے کی گنجائش ہے۔
لما في التنزیل:
﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾.(سورة التوبة:60).
وفي الشامیة:
(هي)..... (تمليك).....(جزء مال).. (عينه الشارع)....(من مسلم فقير) ....(غير هاشمي ولا مولاه).(كتاب الزكاة،3/203-206،ط:رشيدية)
و فيه أيضا:
(هو فقير، وهو من له أدنى شئ) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة.
والحاصل أن المراد هنا الفقير المقابل للمسكين لا للغني. قوله ( أي دون نصاب) أي نام فاضل عن الدين فلو مديونا فهو مصرف كما يأتي.(كتاب الزكاة،باب المصرف،3/333،ط:رشيدية).
و في البحر:
قوله:(هو الفقير والمسكين،وهو أسوأ حالا من الفقير)أي المصرف الفقير والمسكين والمسكين أدنى حالا وفرق بينهما في الهداية وغيرها بأن الفقير من له أدنى شيء والمسكين من لا شيء له وقيل على العكس ولكل وجه والأول هو الأصح وهو المذهب كذا في الكافي والأولى أن يفسر الفقير بمن له ما دون النصاب كما في ، النقاية أخذا من قولهم يجوز دفع الزكاة إلى من يملك ما دون النصاب أو قدر نصاب غير تام ، وهو مستغرق في الحاجة.(كتاب الزكاة،باب المصرف،2/419،ط:رشيدية).
وفي التنویر مع الدر:
(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان كمن له نصاب سائمة لا تساوي مائة درهم.
وفي الرد:
قوله:(فارغ عن حاجته) قال في البدائع:قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال:لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة.(کتاب الزکاة،باب المصرف،مطلب:في حوائج الأصلیة:3/346،ط:رشیدیة).
وفي مختصر القدوري:
وإن كان ماله أكثر من الدين زكى الفاضل إذا بلغ نصابا وليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة.(کتاب الزکاة،باب من یجوز دفع الصدقة إلیه ومن لایجوز،ص:115،ط:معهد عثمان بن عفان)
۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 173/333,335