کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ بیوی شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے، اور شوہر طلاق دینے سے انکار کرتا ہے اور اسی بحث و مباحثہ میں شوہر یہ کہتا ہے کہ ‘میں تجھے چھوڑ دوں گا’طلاق کا لفظ استعمال نہیں کرتا، لیکن اس شرط پر کہ تم اپنے ماں باپ کے گھر رہو گی، اور کسی سے نکاح نہیں کرو گی، کچھ دن بعد میں تم سے دوبارہ نکاح کر لوں گا، اسی دوران بیوی شوہر سے کہے کہ تم نے مجھے تین طلاق دے دی شوہر کہتا ہے ‘ ہاں’ ۔ شوہرنے اس سوال کے جواب میں ہاں کہا ہے جو عورت نے اس سے پوچھا کہ تم نے مجھے تین طلاق دے دی، شوہر نے کہا ہاں ۔ بعد میں شوہر یہ کہتا ہےکہ یہ ‘ہاں’ میں نے غلطی میں کہا ہے،مجھے نہیں معلوم کہ یہ ‘ہاں ‘ میں نے کس سوال کے جواب میں کہا ہے۔ اب علماءِ کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ طلاق ہوئی ہے ، یا نہیں؟ اگر ہوئی ہے تو کتنی؟
واضح رہے کہ بیوی کے اس جملے’تم نے مجھے تین طلاقیں دی ہیں’کے جواب میں اگر واقعتاً شوہر نے ‘ ہاں ‘ کہا ہے تو شوہر طلاق دینے کا اقرار کرتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی ، اور اس کی بیوی اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی، اور دونوں کا ایک ساتھ رہنا بغیر حلالہ شرعیہ کےقطعاً جائز نہیں۔
لما في الدر:
ولو قيل له طلقت امرأتك فقال نعم أو بلى بالهجاء طلقت بحر. (كتاب الطلاق،باب الصريح، 4446،ط:رشيدية)
وفي المحيط البرهاني:
إذا قالت المرأة لزوجها: قد طلقت نفسي فقال الزوج: قد أجزت ذلك فهذا جائز، ويقع عليها تطليقة رجعية؛ لأن هذا تصرف فضولي لم يجد نفاذاً عليها؛ لأن المرأة لا تملك إيقاع الطلاق على نفسها وله مجيز حال وقوعه وهو الزوج، فيتوقف على إجازته.(كتاب الطلاق، الفصل الثامن: في الطلاق الذي يكون من غير الزوج، 4490،ط: ادارة القران)
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 169/116