طلاق کے بعد بچیوں کی پرورش کا حقدار کون ہوگا؟

Darul Ifta mix

طلاق کے بعد بچیوں کی پرورش کا حقدار کون ہوگا؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے بھائی کی شادی کو چھ سال ہو گئے ہیں، ان کی دو بیٹیاں ہیں، بڑی بیٹی کی عمر پانچ سال اور چھوٹی بیٹی کی عمر دو سال ہے تقریباً ۔بیوی خاوند کا کہنا نہیں مان رہی ہے اور روزانہ خاوند سے جھگڑا کرتی ہے، جس کی وجہ سے اڑوس پڑوس اور خاندان میں ہماری بہت بدنامی ہوئی ہے، یہ چھ سال میرے بھائی نے بہت ذلیل ہو کر گزارے اور بیوی بالکل گزارہ نہیں کر رہی ہے، بھائی اگر تنگ آکر اس حالت میں طلاق دیں تو دونوں بیٹیوں کا کیا ہوگا؟بیٹیاں ماں کے ساتھ کب تک رہیں گی؟ اور باپ کے ذمہ ماہانہ حد خرچہ بیٹیوں کی پرورش کے لیے کتنا ہو گا؟بیوی کا حق مہر ایک تولہ سونا ہے، خاوند کی طرف سے بیوی اور بیٹیوں کو کیا ملے گا؟ براہ کرم شریعت اسلام کی رو سے تفصیلاً وضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان تنازعات اور اختلافات پیدا ہو جائیں، جس کی وجہ سے آئے روز لڑائی جھگڑے معمول کا حصہ بن جائیں، تو شریعت مقدسہ کی رُو سے دونوں خاندانوں کے بااثر افراد کے ذریعے، میاں بیوی کے مابین مصالحت کی پوری کوشش کی جائے، میاں بیوی اگر آپس میں صلح او راتفاق چاہتے ہیں تو الله تعالیٰ بھی ضرور ان کے درمیان اتفاق پیدا فرما دیں گے،حاصل یہ ہے کہ ابتداءً میاں بیوی کے درمیان صلح ہی کی کوشش کی جائے، کیوں کہ طلاق ایسا فعل ہے جو بدرجہ مجبوری جائز تو ہے، مگر پھر بھی الله تعالیٰ کے ہاں ایک ناپسندیدہ فعل ہے، حتی الامکان اس سے احتراز کی کوشش کی جائے اور اگر بغیر طلاق کے چارہ کار نہ ہو، تو طلاق دینے کے بعد دونوں بچیوں کی نو سال عمر ہونے تک ان کی پرورش کا حق ان کی والدہ کو ہو گا اور اس عرصے میں بچیوں کا خرچہ حسب استطاعت والد کے ذمے رہے گا اور خاوند کی طرف سے بیوی کو مقرر کردہ حق مہر ( ایک تولہ سونا) اور زمانہ عدت کا خرچہ بھی دیا جائے گا، بچیوں کی عمر نو سال ہونے کے بعد ان کو باپ کے حوالے کیا جائے گا اور ان کا نکاح کرانے کی ولایت بھی باپ کو حاصل ہوگی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر : 162/333،334