کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے سلسلے میں کہ مجھے طلاق کی اقسام کے بارے میں جاننا ہے، نیر اگرکوئی جھوٹا اقرار کرے کہ میں نے اپنی بیوی کو پچھلے سال ایک طلاق دی ہے، تو کیا ایک طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟
طلاق کی تین اقسام ہیں:
1… طلاقِ احسن: ”ایسے طہر میں طلاق دینا جس میں جماع نہ کیا ہو اور پھر عدت گزرنے تک بیوی سے دور رہنا“، یہ سب سے بہتر طریقہ ہے، اس وجہ سے کہ اس میں دورانِ عدت رجوع کا اختیار رہتا ہے ، اگر عدت گزرنے کے بعد میاں بیوی دوبارہ ساتھ رہنے کا ارادہ کریں تو نئے سرے سے نکاح کرنا ہو گا۔
2.… طلاقِ حسن (سُنی):”بیوی کو الگ الگ تین طلاق دینا ایسے طہر میں جس کے دوران جماع نہ کیا ہو“، تیسری طلاق دینے سے پہلے پہلے رجوع کا اختیار رہتا ہے۔
3.… طلاقِ بِدعی:” ایک طہر میں ایک ہی جملے سے تین طلاق دینا یا ایسے طہر میں طلاق دینا جس میں جماع کیا ہو یا حیض کی حالت میں طلاق دینا“، اگرچہ اس طرح کرنا گناہ ہے، البتہ طلاق واقع ہو جائے گی۔
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے متعلق جھوٹا اقرار کرے کہ:” میں نے اسے پچھلے سال ایک طلاق دی ہے ،“ تو اس سے دیانةً تو طلاق واقع نہ ہو گی، البتہ قضاءً ایک طلاقِ رجعی واقع ہو جائے گی، یعنی اگر یہ مسئلہ بطورِ مقدمہ پیش ہو تو وقوع طلاق کا حکم لگایا جائے گا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی