کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ا س مسئلہ کےبارے میں کہ ایک شخص جس کانام زید ہے،اس نے بیگم اسماء کو ناچاقی و بدتہذیبی کے باعث اولاً ایک طلاق صریح بذریعہ پیپر بھیجی جو اسماء کو موصول بھی ہوئی ۔
پھر کچھ عرصہ تقریباً تین سے چار دن ان کے مابین خاموشی رہی اور پھر زید نے اس رشتے کو ختم کرنے کی نیت سے کورٹ سے اپنی رضامندی کے ساتھ طلاق کے پیپر بنوائے،طلاق کے ان پیپروں میں یہ واضح لکھا تھا ، میں زید بن بکر فلانی ،فلانی وجوہات کی بناء پر تمہیں یعنی اسماء بنت صمد کو طلاق دیتا ہوں ۔۔۔ طلاق دیتا ہوں ۔۔۔طلاق دیتا ہوں۔۔۔۔
مذکورہ عبارت کے بعد اس شخص یعنی زید نے دو گواہان سے اس طلاق کے پیپروں پر دستخط کروائے اور انہی گواہان میں سے ایک شخص کو یہ پیپر پکڑ ا کر بطور وکیل مقرر کرکے اسماء کے گھر روانہ کیا ، اور اسماء کو یہ پیپر موصول ہوگئے۔
اب زید اور اسماء عدت کی مدت کی اندر اندر دوبارہ ملنا جلنا شروع کر چکے ہیں،اور سمجھانے پر زید یہ دلیل دیتا ہے کہ اس نے جو طلاق کے پیپرز اسماء کو وکیل کے ذریعے بھیجے تھے ،ان پر اس نے دستخط نہیں کیے تھے، لہذا وہ ملنا جلنا برقرار رکھیں گے، مفتیان کرام سے درخواست ہے کہ جتنا واضح طور پر مسئلہ سمجھا سکیں ، واضح کردیں، تاکہ آئے روز کا جھگڑا ختم ہو اور یہ بتائیں کہ طلاق ہو چکی ہے ، یا نہیں؟ اگر ہو چکی ہے تو زید کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ جزاکم اللہ خیرا
واضح رہے کہ طلاق کے وقوع کے لیے طلاق نامہ پر دستخط کرنا ضروری نہیں ہے،بلکہ اپنی رضامندی سے اپنی بیوی کے نام طلاق نامہ لکھوانے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،لہذا صورت مسئولہ میں اگر واقعتا صورت حال وہی ہے جو سوال میں ذکر ہے اور اس میں غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا ہو تو ایک طلاق صریح دینے کے بعد زید کا اپنی رضامندی سے طلاق نامہ بنوانے سے زید کی بیوی کو تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ،اگرچہ زید نے دستخط نہ کیے ہوں ، اب زید پر اس کی بیوی حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے اور بغیر حلالہ شرعیہ کے ان کا ایک دوسرے کے ساتھ ملنا جلنا ناجائز اور حرام ہے،اگر سمجھانے کے باوجود بھی اسی طرح تعلقات برقرار رکھے تو ان سے قطع تعلق اختیار کیا جائے۔ ۔فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 169/175