کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شوہر اور بیو ی کئی سالوں سے علیٰحدہ رہتے ہیں، بات چیت بھی نہیں کرتے، اب شوہر اس بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ اور اس میں ان پر ایک دوسرے کے کیا حقوق ہوں گے؟
واضح رہے کہ طلاق کو”ابغض المباحات” کہا گیا ہے ، لیکن اگر طلاق دینی ہی پڑ جائے تو پاکی کے زمانے میں ایک طلاق دے دے، کیوں کہ اس طرح میاں بیوی کے درمیان تعلقات بحال ہونے کا امکان ہو گا، چناں چہ عدت کے دوران شوہر کو طلاق سے رجوع کرنے کا حق رہتا ہے اور عدت کے بعد دونوں کی باہمی رضا مندی سے نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح ہو سکتا ہے، طلاق کا مطالبہ اگر عورت کی طرف سے نہ ہو تو شوہر کے لیے حلال نہیں کہ وہ طلاق دے کر مہر واپس یا معاف کرنے کا مطالبہ کرے، چناں چہ طلاق دینے کے بعد عورت کا مہر اگر نہ دیا ہو تو ادا کرنا واجب ہو گا اور اسی طرح علیحدگی اور فرقت اگر بیوی کی جانب سے نہ ہو تو اس کی عدت کا نفقہ شوہر پر واجب ہوگا او ربہتر یہ ہے کہ ایک جوڑا کپڑا یا کوئی تحفہ بھی ساتھ دے دے، طلاق دینے کے بعد عورت کے لیے واجب ہو گا کہ وہ طلاق کے فوراً بعد شوہر کے گھر میں چلی جائے اور وہاں عدت گزارے، شوہر کے گھر عدت نہ گزارنے کی صورت میں شوہر پر اس کے نفقہ وسکنیٰ کا حق نہیں رہتا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی