کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان ِ عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک آدمی کے دو بیٹے ہیں اور وہ دونوں شادی شدہ اور صاحب ِ اولاد ہیں ، جو بڑا بیٹا ہے اس نے کچھ عرصہ قبل اپنے والد سے یہ خواہش ظاہر کی کہ والد صاحب میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں، تو والد صاحب نے کہا کہ اگر آپ کا کوئی شرعی عذر ہے تو اس پر میں غور کروں گا، اوراگر بغیر کسی شرعی عذر کے تم ایسا کرو گے تو میں تمہیں اجاز ت نہیں دیتا۔ اوربڑیبیٹے کو والد نے اور خاندان کے معزز لوگوں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی،مگر اس نے کسی کی بھی نہ سنی ، دو مرتبہ والدہ محترمہ نے بھی اسے کافی سمجھایا جس کے جواب میں بیٹے نے والدہ کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے اور والدہ سے بد تمیزیبھی کی ،مفتی صاحب! بڑے بیٹے نے لڑکی بھی خود سے تلاش کی او رنکاح کی تاریخ بھی خود سے رکھی ، چھوٹا بیٹا شروع سے ان کے ساتھ رہتا ہے، والد نے چھوٹے بیٹے سے کہا کہ آپ کا بڑا بھائی میری اور تمہاری والدہ کی اجازت کے بغیر شادی کر رہا ہے، لہٰذا تمہیں اس کے نکاح میں شریک نہیں ہونا۔ لیکن چھوٹے بھائی نے والد سے اصرار کیا کہ مجھے آپ شادی میں شرکت کی اجازت دے دیں، چھوٹے بیٹے کے اصرار پر والد نے اس سے کہا ”اگر تم نے بڑے بھائی کے نکاح میں شرکت کی تو میری بیوی مجھ پر تین طلاق“ اس بات پر جھوٹا بیٹا بھائی کے نکاح میں شریک نہیں ہوا اور والد نے چھوٹے بیٹے سے کہا ”اگر تم نکاح کے بعد اس سے تعلقات رکھو گے تو تم میرے بیٹے نہیں ہو گے“ او راگر اس سے تعلقات رکھتے ہوئے میرے پاس آؤ گے تو میں تمہیں کبھی گھر نہیں چھوڑوں گا او رتم سے تعلقات نہیں رکھوں گا، اور والد نے چھوٹے بیٹے سے کہا کہ جب بھی تم میرے پاس آنا تو بڑے بھائی سے تعلقات ختم کرکے آنا تو پھر میں ان الفاظِ طلاق کا پابند نہیں ہوں گا او رتمہیں گھر چھوڑ دوں گا، مفتی صاحب! اب اگر کچھ وقت کے بعد چھوٹا بیٹا والد کے پاس آنا چاہتا ہے تو اس صورت میں والد صاحب کے لیے بیٹے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اور والد صاحب کون سا راستہ اختیارے کہبیٹے کو گھر آنے کی اجازت دے دے، مفتی صاحب! میری جو پہلے والی شرط ہے، نکاح میں شرکت والی تو اس پر بیٹے نے شرکت نہیں کی، اور دوسری شرط تعلقات والی کہ ”تعلقات ختم کرکے آؤگے تو پھر میں ان الفاظ طلاق کا پابند نہیں ہوں اور میں تمہیں گھر آنے کی اجازت دے دوں گا “اور تیسری شرط رہن سہن والی، اس میں بھی وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ اب مفتی صاحب میرا چھوٹا بیٹا تین شرائط میں سے ایک پر تو پورا اترا ہے، مگر دوسری اور تیسری شرط پر ابھی پورا نہیں اترا، اس کے بارے میں قرآن او رحدیث کی روشنی میں راہ نمائی فرما کر مشکور فرمائیں۔
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے ہر مرد کو حسب ضرورت وحسب قدرت ادائے حقوق چار شادیوں کی اجازت دی ہے، یہ ہر آدمی کا شرعی حق ہے او رکوئی بھی اس شرعی حق کو کسی سے سلب کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ والدین کے ادب اور احترام کی بڑی تاکید شریعت نے فرمائی ہے، یہاں تک کہ اگر کسی کے والدین خوانخواستہ مشرک ہوں تو بھی شریعت کا یہ حکم ہے کہ ناجائز بات میں اگرچہ ان کی اطاعت نہ کی جائے، لیکن ان کے احترام او رادب کو بہرحال پامال نہ کیا جائے۔
صورت ِ مسئولہ میں اگر چھوٹا بیٹا اپنے بھائی کے ساتھ تعلقات اور رہن سہن برقرار رکھتے ہوئے اپنے والد کے گھر جائے اور والد اسے گھر میں چھوڑ دے، تو تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔
اب تین طلاقوں سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ والد اپنی بیوی کو ایک طلاق بائن دے دے، او رجب بیوی کی عدت ختم ہو جائے تو چھوٹا بیٹا اپنے بڑے بھائی کے ساتھ تعلقات اور رہن سہن برقرار رکھتے ہوئے والد کے گھر آئے اور والد اسے گھر آنے کی اجازت دے دے، تو اس صورت میں تعلیق بھی ختم ہو جائے گی او رمزید کوئی طلاق بھی واقع نہیں ہو گی، اس کے بعد بیوی سے مہر جدید کے ساتھ نکاح کرلیا جائے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر : 157/77