کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زیدکا انتقال ہوگیا اور اس کی اولاد میں عمر ، بکر ، خالد ، اور احسان رہ گئے ،اور چاروں نے والد کی مکمل جائیداد تقسیم کی، اور جائیداد میں سے ہر ایک کے حصّے کو متعین کیا ،لیکن چاروں بھائی جائیداد کو اکٹھے سنبھالتے ہیں اور اکٹھے رہتے ہیں ،(لیکن گھر میں ہر ایک کا حصّہ معلوم ہے) ایک دن خالد نے غصّے میں یہ کہا کہ“ اگر میں اپنی جائیداد کو سنبھالنے گیا تو میری بیوی کو تین طلاق ہیں” اب پوچھنا یہ ہے کہ اگر خالد اور بکر آپس میں اپنے حصّوں کو تبدیل کریں تو کیا پھر خالد اپنے اس حصّے کو جا سکتا ہے جو اس نے بکر سے تبدیل کیا ہے، یا نہیں؟ اگر نہیں تو شرعی حیلہ کیا ہے؟تین طلاقوں سے خلاصی کس صورت میں ہوسکتی ہے؟ راہنمائی فرمائیں۔
صورتِ مسؤلہ میں خالد اگر اپنے حصہ کی جائیداد کی نگرانی کے لیے گیا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔
تین طلاقوں سے بچنے کا حیلہ یہ ہے کہ خالد اپنی بیوی کو ایک طلاق بائن دے کر اس سے ازدواجی تعلق ختم کردے، جب عدت گزر جائے تو خالد اپنی جائیداد سنبھالنے چلا جائے، اس کے بعد خالد تجدیدِ نکاح کرلے، اب خالد کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
وفي الدر المختار:
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا"
(كتاب الطلاق:باب في التعليق:۴/۶۰۰، ط: دار المعرفة، بيروت)
وفي الدر المختار:
"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها"
(كتاب الطلاق:باب في التعليق:۴/۶۰۰، ط: دار المعرفة، بيروت)
وفيالهندية:
"وإن وجد في غير الملك انحلت اليمين بأن قال لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق فطلقها قبل وجود الشرط ومضت العدة ثم دخلت الدار تنحل اليمين ولم يقع شيء كذا في الكافي"(كتاب الطلاق:الباب الرابع في الطلاق بالشرط: الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما:۱/۴۸۸، ط: دار الفكر، بيروت)
۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 168/325