کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارےمیں کہ ہمارے آباؤ اجداد (داد وغیرہ) صفر کے مہینے کے آخری بدھ چند مرتبہ یاسین شریف اور درود شریف پڑھ کر رات بھر عبادت کرکے صبح بواسیر کے مریضوں کو پانی دیا کرتے تھے۔ اب ان کے انتقال کے بعد یہ ذمہ داری مجھ پر آ گئی ہے، تو میں جاننا چاہتا ہوں کیا ان کا یہ عمل صحیح تھا یا نہیں؟ اور مجھے یہ عمل کرنا چاہیے یا نہیں؟ اور جو لوگ پانی لے جاتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم کو الحمدللہ! اللہ تعالی اس پانی کے ذریعے سے شفا دیتا ہے۔
برائے کرم مفتی صاحب ! میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ تاکہ میں گھر والوں کے سامنے اسے بیان کر سکوں
صورت مسئولہ میں صفر کے آخری بدھ کو یہ عمل اگر اس نظریے کے تحت کیا جاتا ہے کہ اس دن آپﷺ بیماری سے شفایاب ہوئے تھے(حالانکہ درحقیقت اس دن آپﷺ کی بیماری میں اضافہ ہوا تھا)اور اس عمل کو اس دن کے ساتھ خاص سمجھا جاتا ہے اور اس دن کو مؤثر سمجھا جاتا ہے، تو یہ عمل قابل ترک ہے،اور اگر یہ عمل اس نظریے کے تحت نہیں کیا جاتا، بلکہ خاندانی مجربات میں سے ہے اور اسے قرآن وسنت سے ثابت بھی نہیں سمجھا جاتا ،اور خاص اس دن کو لازم بھی نہیں سمجھا جاتا ،تو پھر یہ عمل کرنادرست ہے۔لما في حجۃ اللہ البالغۃ:
’’وکان الناس قبل النبي صلی اللہ علیہ وسلم :یتمسکون في أمراضھم وعاھاتھم بالطلب والرقی.....وأما الرقي:فحقیقتھا التمسک بکلمات،لھا تحقق في المثل وأثر، والقواعد الملیۃ لاتدفعھا مالم یکن فیھا شرک لاسیما إذا کان من القرآن أو السنۃ أو مما یشبھھا من التضرعات إلی اللہ‘‘.(اللباس والزینۃ والأواني ونحوھا، الطب والرقی:۵۲۴/۲،قدیمي).
وفي البحر الرائق:
’’ولا بأس بالرقیا؛لأنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان یفعلہ، وما روي من النھي، کان محمولا علی رقي الجاھلیۃ؛لأنھم کانوا یرقون بألفاظ کفر، وما رواہ ابن مسعود: أنہ علیہ الصلاۃ والسلام قال: الرقي والتمائم والتؤدۃ(والتولۃ) شرک، محمول علی ماذکرنا.....وعن عائشۃ رضي اللہ تعالٰی عنھا:کان النبي إذا مرض أحد من أھلہ، تفث(نفث) علیہ بالمعوذتین،فلما مرض المرض الذي مات فیہ، جعلت أنفث علیہ، وأمس جسدہ بیدہ؛لأنہ أبرک من یدي‘‘.(کتاب الکراھیۃ،فصل في البیع:۳۸۲/۲،رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:180/186