کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے ایک دوست اپنے مرحوم بھائی کی بیٹی کی شادی پر شادی ہال کی بکنگ کے لیے درج ذیل پیغام اپنے احباب کو بھیج رہے ہیں:
”75000/= میں سے ہم نے50000 کا انتظام کر لیا ہے، آپ سے بھی گزارش ہے جتنا ہو سکے زکوٰة میں سے تعاون کریں، تاکہ بروقت میرے مرحوم بھائی کی بیٹی کی شادی کے لیے ہال کی بکنگ کی جاسکے“۔
آپ سے التماس ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں کہ:
1..کیا بھتیجی کی شادی پر شادی ہال کی بکنگ کے لیے اس طرح زکوٰة سے امداد مانگنا جائز اور درست ہے؟
2..کیا اس طرح جمع کی گئی زکوٰة کی رقم سے شاہانہ اخراجات کیے جاسکتے ہیں؟
3..کیا اس مد میں زکوٰة سے تعاون کرنے والے حضرات کی زکوٰة ادا ہو جائے گی؟
واضح رہے کہ زکوٰة دیتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر مستحقین کا جائرہ لینا چاہیے، پھر جس کی ضرورت اشد ہو اسے زکوٰة دینے میں مقدم کیا جائے، نیز اسلام نے شادی بیاہ میں سادگی کو پسند کیا ہے اور شریعت میں پُر تکلف انتظامات کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ” سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جو بوجھ کے اعتبار سے سب سے ہلکا ہو۔“ (رواہ البیھقی فی شعب الإیمان)۔
صورت ِ مسئولہ میں اگر زکوٰة کے پیسے براہ ِ راست ہال پر لگائے جارہے ہیں تو اس سے زکوٰة ادا نہیں ہو گی، اور اگر لڑکی کو مالک بنا کردی جارہی ہے، تو زکوٰة تو ادا ہو جائے گی، البتہ جیسے ہی لڑکی نصاب کے بقدر مال کی مالک بن جائے گی تو اس کے لیے مزید زکوٰة لینا جائز نہیں ہو گا۔
لہٰذا لڑکی کو نصاب سے کم کا مالک بنا کر زکوٰة دینا درست ہے اورمنکرات سے خالی شادی کے لیے اس طرح زکوٰة سے امداد مانگنا اگرچہ ناجائز تو نہیں، البتہ اخلاقی اقدار اس بات کو گوارا نہیں کرسکتی کہ زکوٰة سے سہولتیں حاصل کی جائیں ،جب کہ مستحقین کی ایک طویل فہرست بنیادی ضروریات ِ زندگی کو بھی ترس رہی ہو۔
خلاصہ یہ کہ تنگ دستی کے وقت فضول خرچی سے بچتے ہوئے، شادی کے لیے صرف ضروری سامان مہیا کرکے سادگی سے لڑکی کو بیاہ دیا جائے، لمبے چوڑے انتظامات کے لیے زکوٰة جمع کرنا درست نہیں، مزید یہ کہ کسی مستحق کو بغیر کسی شدید ضرورت کے زکوٰة کی اتنی رقم دینا جس سے وہ خود صاحب نصاب ہو جائے، مکروہ ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی