کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ جو شادی وغیرہ کی تقریبات میں سلامی دینے کا رواج ہے،اس کی شرعا کیا حیثیت ہے ؟ آیا سلامی دینا یا لینا جائز ہے یا نہیں ؟
اگر شادی کے موقع پر تحفے اور لفافے وغیرہ رسم و رواج کے دباؤ کی وجہ سے دیئے جائیں یا اس کا عوض واپس کرنے کو ضروری سمجھا جاتا ہو ، یاواپسی میں اضافے کو لازمی سمجھا جاتا ہو، تو ان صورتوں میں سلامی لینا دینا جائز نہیں۔
البتہ اگر کسی قسم کے بدلے کی نیت نہ ہو ،رسم و رواج کا دباؤ بھی نہ ہو ، محض خوشی کے موقع کی مناسبت سے کچھ رقم بطور تعاون ہدیہ کی جا رہی ہو ، تو یہ جائز ہے ،تا ہم بہتر یہ ہے کہ ولیمے کے وقت دینے کے بجائے پہلے یا بعد میں ضرورت اورموقع کی مناسبت سے دے دی جائے ۔
لما في روح المعاني :
وعن النخعي رحمه الله أن الآية نزلت في قوم يعطون قراباتهم وإخوانهم على معنى نفعهم وتمويلهم والتفضيل عليهم وليزيدوا في أموالهم على جهة النفع لهم وهي رواية عن إبن عباس رضي الله عنهما.
وفيه أيضا:
وكذا صرحوا بأن ما يأخذه المعطي لتلك العطية من الزيادة على ما أعطاه ليس بحرام ودافعه ليس بآثم،لكنه لا يثاب على دفع الزيادة ؛لأنها ليست صلة مبتدأةبل بمقابلة ما أعطى أولا ولا ثواب فيما يدفع عوضا وكذا لا ثواب في إعطاء تلك العطية أولا؛لأنها شبكة صيد.(سورة الروم،أية،36:21/46،ط:دارالأحياء التراث العربي)
وفي تفسير المدارك:
وَمَا ءاتَيْتُمْ مّن رِباً لّيَرْبُوَاْ فِى أَمْوَالِ الناس } يريد وما أعطيتم أكلة الربا من رباً ليربوا في أموالهم { فَلاَ يَرْبُواْ عِندَ الله } فلا يزكوا عند الله ولا يبارك فيه . وقيل : هو من الربا الحلال أي:وما تعطونه من الهدية لتأخذوا أكثر منها فلا يربوا عند الله لأنكم لم تريدوا بذلك وجه الله.(سورة الروم،أية،36:2/310،ط:قديمي كتب خانه).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 174/239