کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ
۱۔ ایک عورت کے پاس“ ساڑھے تین تولہ سونا ”ہے، اور اس کے علاوہ ایک دو روپیہ بھی نہ ہو،اس پر زکوۃ ہے ،یا نہیں؟
۲۔اگر اس کے پاس تین چار سو روپے آئے بھی ،تو وہ دو دن نہیں رہیں؟
۳۔کیا زکوۃ میں اگر کل نصاب ہلاک ہوجائے، تو اس کا صاحب نصاب ہونا ختم ہوگا، پھر اگر دو ماہ بعد صاحب نصاب ہو جائے،تو پہلے مہینے ،و تاریخ کا اعتبار ہوگا کہ نہیں؟ مثلا :یکم جنوری کو کوئی صاحب نصاب ہوھیا،تو گلے یکم جنوری کو حولان حول ہوگا، لیکن اس دوران مارچ میں بالکلیہ نصاب ختم ہوگیا، پھر یکم جون کو نصاب کا مالک ہوا ، تو اس کا حولان حول کب ہوا ؟ یکم جون ،یایکم جنوری کو؟
۴۔مذکورہ بالا عورت کے پاس جب روپیہ آئے گا، تو یہ نصاب کی مالک شمار ہوگی، یا فقظ سونے کی وجہ سے ؟رہنمائی فرمائیں۔
۱۔صورت مسئولہ میں عورت پر زکوۃ واجب نہیں ہے، کیونکہ ان کے پاس “سونا” نصاب ( ساڑھے سات تولہ )سے کم ہے۔
۲۔مذکورہ عورت پرزکوۃ واجب ہے، کیونکہ سونا اگرچہ نصاب سے کم ہے، لیکن اس کے پاس نقد پیسے ہیں،تو دونوں کو ملاکر اس پر زکوۃ واجب ہوجاتی ہے۔
۳۔مال ہلاک ہونے کے بعد جب دوبارہ مال ہاتھ میں آجائے،اس وقت سے حولان حول کا اعتبار ہوگا،لہذا صورت مسئولہ میں سال کی ابتداء یکم جون کو جو اسلامی تاریخ تھی اس سے شمار ہوگی۔
۴۔۔دونوں کے مجموعہ سے نصاب کی مالک ہوگی۔
لما في الهدايه:
"ليس فيما دون عشرين مثقالا من الذهب صدقة، فإذا كانت عشرين مثقالا ففيها نصف مثقال ."(باب زكاة المال، فصل في الذهب:2/39،ط: البشرى)
وفي البدئع:
"فأما إذا كان له الصنفان جميعا ،فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا، بأن كان له عشرة مثاقيل ،ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا."(كتاب الزكاة، فصل في مقدارالوجب:2/409،ط: رشيديه)
و في الهدايه:
"قال : وتضم قيمة العروض إلى الذهب، والفضة حتى يتم النصاب، لأن الوجوب في ذلك باعتبار التجارة ،وإن افترقت جهة الأعداد ،ويضم الذهب إلى الفضة للمجانسة من حيث الثمنية"(كتاب الزكاة،باب زكاة المال، فصل في العروض:2/40،ط:البشرى)
وفي الهدايه:
بخلاف ما لو هلك الكل حيث يبطل حكم الحول.(باب زكاة المال، فصل في العروض:2/42،ط: البشرى)
وفي تبيين الحقائق:
"قال رحمه الله: ( وتضم قيمة العروض إلى الثمنين ،والذهب إلى الفضة قيمة ) أي: تضم قيمة العروض إلى الذهب ،والفضة ،ويضم الذهب إلى الفضة بالقيمة فيكمل به النصاب ،لأن الكل جنس واحد لأنها للتجارة ،وإن اختلفت جهة الأعداد ووجوب الزكاة باعتبارها."(كتاب الزكاة،باب زكاة المال:2/80،ط:عباس احمد الباز).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 175/301،304