کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک لڑکے کی عمر اس سال ۴ رمضان المبارک کو سولہ سال ہوجائے گی،ابھی تک اس کی داڑھی مونچھیں نہیں آئی،تو کیا وہ اس سال کسی مسجد میں تراویح کی امامت کراسکتا ہے ؟ راہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ جس بالغ لڑکے کی داڑھی مونچھ نہ آئی ہو،اور نہ ہی اس کی صورت ایسی ہو کہ جس کی طرف کسی کا غلط دھیان جاسکتا ہو تو اس کی امامت بلاکراہت درست ہے،اور اگر صورت ایسی ہو کہ جس کی طرف غلط دھیان جاسکتا ہواور فتنے کا اندیشہ ہوتو اس کی امامت مکروہ تنزیہی ہے۔لہذا بہتر یہی ہے کہ ایسی صورت میں مسجد کی بجائے گھر میں محارم والد ،بھائی ، اور چچا وغیرہ کو تراویح میں قرآن پاک سنادے ۔
لما في الدرمع الرد:
(وكذا تكره خلف أمرد) (قوله وكذا تكره خلف أمرد) الظاهر أنها تنزيهية أيضا. والظاهر أيضا كما قال الرحمتي أن المراد به الصبيح الوجه لأنه محل الفتنة، وهل يقال هنا أيضا: إذا كان أعلم القوم تنتفي الكراهة: فإن كانت علة الكراهة خشية الشهوة وهو الأظهر فلا، وإن كانت غلبة الجهل أو نفرة الناس من الصلاة خلفه فنعم فتأمل. والظاهر أن ذا العذار الصبيح المشتهى كالأمرد تأمل
هذا، وفي حاشية المدني عن الفتاوى العفيفية: سئل العلامة الشيخ عبد الرحمن بن عيسى المرشدي عن شخص بلغ من السن عشرين سنة وتجاوز حد الإنبات ولم ينبت عذاره، فهل يخرج بذلك عن حد الأمردية، وخصوصا وقد نبت له شعرات في ذقنه تؤذن بأنه ليس من مستديري اللحى، فهل حكمه في الإمامة كالرجال الكاملين أم لا أجاب: سئل العلامة الشيخ أحمد بن يونس المعروف بابن الشلبي من متأخري علماء الحنفية عن هذه المسألة.فأجاب بالجواز من غير كراهة.(كتاب الصلاة،باب الامامة،2359،ط:رشيدية)
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 173/44