کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے اپنی خالہ مرحومہ کی بیٹی کو پیدا ہوتے ہی گود لے لیا تھا، اس بچی کی والدہ بچی کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی فوت ہو گئی تھی، جب کہ اس کے حقیقی والد حیات ہے، مگر اس نے پیدائش کے وقت سے اب تک بیس سالہ عرصہ میں اپنی بچی سے کبھی تعلق نہیں رکھا ہے اور بچی کی پرورش کرنے والوں سے بھی اس کے والد کی خاندانی چپقلش ہے، چناں چہ پیدائش کے وقت سرکاری جنم پر چی بھی پرورش کرنے والے باپ (جو کہ اس کا در حقیقت خالو ہے) کے نام بنی ہوئی ہے، یعنی باپ کی جگہ ان کا نام لکھا گیا ہے، اب بچی کی شادی کا مسئلہ درپیش ہے جس میں ہم اس کے حقیقی والد کی جگہ اس کے خالو (جنہوں نے اس بچی کی پرورش کی ہے، کا نام لکھنا چاہتے ہیں، تاکہ آئندہ سرکاری معاملات جو پیش آنے ہیں اس میں مشکلات نہ ہوں مثلاً :شناختی کارڈ بنوانے کے سلسلے میں اسی حقیقی والد سے رجوع کرنا پڑے گا جو کہ ہمارے غالب گمان کے مطابق مسائل پیدا کرے گا اور قانونی رکاوٹوں کا سامنا ہو گا، تو برائے کرم آپ اس کا شرعی حل بتا دیں کہ بچی کی شادی کے فارم میں اس کے پرورش کرنے والے والدیعنی خالو کا نام لکھ سکتے ہیں یا نہیں؟ او راگر نہیں لکھ سکتے تو پھر مذکورہ پیش آنے والے مسائل کا حل کیسے نکالا جائے گا ؟اس مسئلہ کا حل جلد بتا کر ممنون ہوں، تاکہ بچی کی شادی کا مسئلہ حل ہو جائے جو کہ لڑکے والوں نے اسی مسئلہ کے شرعی حل پر موقوف کیا ہوا ہے اور بچی کے نکاح میں چند ہی ایام رہ گئے ہیں۔
واضح رہے کہ بچوں کے لیے دنیا میں اسباب کے درجے میں والدین ہی ایسا سہارا ہوتے ہیں جو بچوں کے دکھ درد کو اپنا ہی دکھ درد سمجھتے ہیں اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتے ہیں او ران کے غم میں خود بے چین ہو جاتے ہیں ، والدین کی آغوش بچوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے، ذکر کردہ صورت میں بچی کی پیدائش کے بعد جب ماں کی صورت میں ایک مضبوط سہارا چھن چکا تھا، تو ایسی صورت حال میں اس کے والد کا اپنی بچی سے لا تعلق ہو جانا اور اس کی خیر خبر تک نہ لینا انتہائی نامناسب فعل ہے، خاندانی رنجش کا بدلہ اس بچی سے لینا گویا اس کو ایسے جرم کی سزا دینا ہے، جو جرم اس نے کیا نہیں، لہٰذا اس کے والد کو چاہیے کہ باپ ہونے کے ناطے اس بچی کی سرپرستی کرے اور اس کے ہر دکھ سکھ کا سہارا بنے۔
تاہم کسی بھی لڑکے یا لڑکی کی نسبت اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کی طرف کرنا، چاہے زبانی ہو یا تحریری، شرعاً جائز نہیں ہے، قرآن وحدیث میں اس سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے،نیز احادیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، لہٰذا شادی فارم میں اور اسی طرح دیگر تمام دستاویزات وغیرہ میں حقیقی والد کا نام لکھنا ہی ضرور ی ہے، تاہم اگر حقیقی والد کی بجائے، لڑکی کے خالو ( جس نے پرورش کی ہے) کا نام نکاح فارم پر لکھ دیا گیا تو نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، نکاح منعقد ہو جائے گا، جب کہ وہ لڑکی گواہوں کے ہاں معلوم او رمتعین ہو۔
باقی اگر حقیقی والدکا نام لکھنے کی صورت میں آئندہ سرکاری معاملات میں مشکلات پیش آنے کا اندیشہ ہو، تو اس بچی کے والد کی انتہائی مناسب انداز میں اصلاح کی کوشش کی جائے او راس کو یہ بات سمجھائی جائے کہ اس کا اپنی بچی کے ساتھ یہ رویہ عقلاً، شرعاً اوراخلاقاً ہر گز درست نہیں ہے، لہٰذا وہ اپنے اس رویے سے باز آجائیں، یا کم از کم کسی سرکاری یا قانونی معاملے میں رکاوٹیں او رمشکلات پیدا نہ کریں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی