کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی شخص زکوٰۃ کی مالیت کے بدلےمیں امامتی کرواتا ہے،تو کیا امام کے لیے امامتی کرنا جائز ہے؟ اور کیا اس سے لوگوں کی زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے ؟ راہنمائی فرمائیں ۔جزاک اللہ
صورتِ مسئولہ میں زکوٰۃ کے عوض امامت کروانا جائز نہیں ، نیز ایسا کرنے سے لوگوں کی زکوٰۃٰ بھی ادا نہیں ہوگی ۔
لما في الدر المختار:
وفي اصطلاح الفقهاء ما ذكره المصنف قوله ( هي تمليك المال من فقير مسلم غيرها هاشمي ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك كل وجه الله. (كتاب الزكاة،2352،رشيدية)
وفي البناية:
إن الزكاة في اصطلاح الشرع عبارة: عن إخراج الحر البالغ المسلم العاقل إذا ملك نصابا ملكا تاما طائفة من المال إلى المصرف؛ لرضا الله تعالى لإسقاط الفرض عن وجه ينقطع نفع المؤدى من المؤدي.( كتاب الزكاة،44،المكتبه الحقانية)
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:171/223