کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید نصاب زکوٰۃ کا مالک ہے ، اس نے زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے کچھ رقم علیحدہ رکھی ہے ، عمر کہتا ہے کہ یہ رقم بطور قرض مجھے دے دو ، کیا زید کے لیے یہ رقم کسی کو بطور قرض کسی کو دینا جائز ہے ؟
اور عمرو یہ بھی کہتا ہے کہ میں آپ کو ہر مہینے دو ہزار روپے دوں گا ، اب یہ رقم اگر دینا جائز ہے تو زید ہر مہینے دو ہزار روپے زکوٰۃ کی مد میں ادا کرے ، یا ایک ساتھ ساری رقم جمع ہونے کے بعد ادا کرے ؟ راہنمائی فرمائیں ۔
واضح رہے کہ زکوٰۃ کی رقم علیحدہ کرنے سے وہ رقم زکوٰۃ دینے والے کی ملکیت سے نہیں نکلتی ، لہذا صورت مسئولہ میں زید کے لیے زکوٰۃ کی علیحدہ کی ہوئی رقم عمرو کو بطور قرض دینا جائز ہے ۔
زکوٰۃ کی رقم متفرق طور پر بھی ادا کر سکتے ہیں ، اور یکبارگی بھی ، البتہ زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہونے کے بعد بلاعذر تاخیر کرنا درست نہیں ، اس سے اجتناب ضروری ہے۔
لما فی الدرمع الرد :
ولا يخرج عن العهدة بالعزل، بل بالاداء للفقراء.قوله: ولا يخرج عن العهدة بالعزل) فلو ضاعت لا تسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثا.(كتاب الزكاة،3/225،ط:رشيدية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 174/335،336