کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے سلسلے میں کہ زید کا اپنا ذاتی فلیٹ ہے اپنے نام سے او رکچھ بنک بیلنس ہے بنک میں سر ٹیفکیٹ کی شکل میں، زید کی ایک بوڑھی والدہ ہیں اور بہن بھائی بھی ہیں، زید کی 2 بیویاں ہیں ، اولاد میں لڑکیاں اورلڑکے ہیں، زید چاہتا ہیے کہ اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد ( یعنی فلیٹ اور بنک بیلنس کی تقسیم کا ایسا انتظام کر دے کہ زید کے انتقال کے بعد جائیداد کی تقسیم کے اوپر ورثاء میں کوئی جھگڑا نہ ہو۔
اس صورت میں کیا کیا حل ہو سکتے ہیں۔
ممکنہ جھگڑے سے بچنے کے لیے زید اپنی زندگی میں مذکورہ لوگوں کے درمیان اپنی جائیداد تقسیم کر سکتا ہے ، لیکن یہ تقسیم میراث نہیں بلکہ ہبہ ہے ۔ اولاد میں برابری کی تقسیم کرنا مستحب ہے ، لیکن اگر کوئی کمی بیشی ہو جائے او رکسی کے نقصان کا ارادہ نہ ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے ۔ اس صورت میں مذکورہ لوگوں کو قبضہ دینا ضروری ہے، قبضہ نہ دینے کی صورت میں جائیداد زید کی ملکیت رہے گی او راس کے انتقال کے بعد شریعت کے مطابق تقسیم ہو گی او راس صورت میں اولاد کی موجودگی کے باعث زید کے بہن بھائی کا میراث میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی