دورانِ کھیل نماز وروزے کا حکم کیا ہے؟

دورانِ کھیل نماز وروزے کا حکم کیا ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ کھیل( خواہ جو بھی کھیل ہو کرکٹ ،فٹ بال، ہاکی وغیرہ) کے دوران مسلمان کھلاڑی کے لیے نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟ اگر ملک کے اندر ہو تو دوران کھیل نماز پوری پڑھے گا اور روزے رکھے گا یا نہیں؟ اور اگر بیرون ملک سفر پرگئے ہوں تو دورانِ کھیل نماز روزے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ایمان کے بعد نماز اسلام کا رکن اعظم ہے، جسے حدیث شریف میں دین کا ستون کہا گیا ہے اور عبادات میں سے اہم ترین عبادت ہے، جس کی تاکید کے لیے قرآن کریم میں جا بجا ذاتِ باری تعالیٰ نے نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے:﴿أقیموالصلوٰة﴾(نماز قائم کرو) ،نماز کے ادا کرنے کے لیے جس سختی سے حکم دیا گیا ہے وہ خود اس عبادت کی افضیلت کی دلیل ہے اور نماز چھوڑنے پر بہت سخت وعیدیں آئی ہیں، لہٰذا نماز کا کسی حالت میں بھی چھوڑنا جائز نہیں ہے، حتی کہ مریض کے متعلق حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مریض اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر قادر ہے تو کھڑے ہو کر نماز پڑھے ،اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر قادر نہیں ہے تو بیٹھ کر نماز پڑھے، اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے پر قادر نہیں ہے تو لیٹ کر اشارے سے نماز پڑھے اور اگر لیٹ کر اشارے سے نماز پڑھنے پر قادر نہیں ہے تو تسبیح کر لیں، یعنی مریض کے اندر جب تک نماز پڑھنے کی قوت وقدرت ہے تو اس کے لیے نماز چھوڑنا جائز نہیں ہے، تو جو شخص صحیح ، سالم، تندرست ہو اور لہو ولعب میں مشغول ہو اس کے لیے نماز چھوڑنا کیسے جائز ہو گا؟

قرآن کریم میں جس طرح نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح روزہ رکھنے کا بھی حکم دیا گیا ہے اور روزہ بھی بغیر شرعی عذر مثلاً :مرض، سفر وغیرہ کے چھوڑنا جائز نہیں ہے۔

لہٰذا مسلمان کھلاڑی کے لیے حالتِ اقامت یعنی اپنے ملک میں کسی حالت میں نماز اور روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے دورانِ کھیل بھی اس پر نماز اور روزہ فرض ہے، صر ف کھیل کی وجہ سے نماز اور روزہ کی فرضیت ختم نہیں ہوتی ہے۔

جہاں تک سفر کا تعلق ہے، تو سفر میں نماز چھوڑنا جائز نہیں، البتہ صرف اتنی تخفیف ہو گی کہ چار رکعت والی نماز دور کعت پڑھی جائے گی ،رمضان المبارک میں مسافر کے لیے شرعاً روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے ، لیکن روزہ رکھنا بہتر ہے، تاکہ بعدمیں قضاء کرنے کی مشقت سے بچ جائے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی