کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے سلسلے میں کہ ہمارے ہاں ڈاکٹر کے پاس مریض جب علاج کے لیے جاتا ہے ، تو ڈاکٹر اس کا علاج اپنی فیس لے کر اس کو ضروری ادویات لکھ دیتا ہے،جو کہ اس کا فریضہ ہے ،میں چوں کہ خود ڈاکٹر ہوں اس لیے چند سوالات اس کے آگے کے حوالے سے کرنا چاہتا ہوں ۔
فارماسیوٹیکل کمپنی جب ایک دوا بناتی ہے ، تو اس کی تشہیر کے لیے کچھ حربے استعمال کرتی ہے …ظاہر ہے دوا کی بکری بغیر ڈاکٹر اور میڈیکل اسٹور والے کے ممکن نہیں، لہٰذا انہی پر پوری توجہ ہوتی ہے ۔
پاکستان میں ایک ہی اجزا ء کی دوا سینکڑوں کمپنیاں بناتی ہیں، جو ہر کمپنی اپنے نام سے متعارف کرواتی ہے ،کمپنی اپنے پاس ڈائریکٹر پروڈکٹ مینیجر اور میڈیکل ریپ کو ملازم رکھتی ہے ،میڈیکل ریپ (Medical Rap) کو کمپنی کی جانب سے جو اصل کام دیا جاتا ہے وہ یہ کہ وہ ڈاکٹر کے پاس جا کر نئی دوا سے متعلق معلومات ڈاکٹر کو فراہم کرے اور اس طرح کمپنی کا بزنس بھی بڑھائے اور تشہیربھی کرے ۔
اب ہوتا یہ ہے کہ جب میڈیکل ریپ ڈاکٹر کو اپنی دوا بتاتا ہے، تو ڈاکٹر اس سے کچھ فرمائش کرتا ہے،جو کہ دوا لکھنے سے مشروط ہوتی ہے، ”جیسے بھائی آپ ہمارے لیے کیا کر سکتے ہو؟جو ہم آپ کے لیے کچھ کریں “
گو ،کہ شریفانہ انداز میں رشوت کو اچھے الفاظ سے بدل دیا گیا ہے ، اگر ڈاکٹر واقعی شریف ہو تو وہ اس طرح کا مطالبہ نہیں کرتا ،لیکن دوا کی کمپنی والے پھر اس طرح ڈاکٹر کو گھیر تے ہیں کہ کبھی اس کو کہیں کا ٹکٹ کروادیا، کبھی گھر والو ں کے ساتھ کھا نے پر لے گئے ،اس طرح ڈاکٹر اگر پہلی بار خود سے مطالبہ نہ بھی کرے تو اس عیاشی اور ریل پیل سے وہ مرعوب ہو کر اگلی بار کہہ ہی دیتا ہے،پھر اب باقاعدہ طور پر معاہدہ طے پاتا ہے کہ اتنے ماہ میں اگر اتنی دوا بکوا دی تو مغربی ممالک کے دورے ، یہاں تک کہ اب تو حج اور عمرے بھی ماشاء للہ ،شرفا، انہی کمپنی کے مرہون منت ادا کرتے ہیں۔
پھر ڈاکٹر کسی بھی چیز کی فرمائش کرتے ہیں ،جو کہ اپنے منصب اور علاقہ میں اپنی مانگ کے حساب سے ہوتی ہے ، گلی محلّہ کا چھوٹا ڈاکٹر، تو AC ،کلینک کی تزئین و آرائش سے لے کر فیملی کے ساتھ ہوٹل میں کھانا کھلانے تک ہوتی ہے اور اگر کنسلٹنٹ اور اسپیشلسٹ ہو تو غیر ملکی تفریحی دورے ، نئی گاڑی کی فرمائش،اس پر باقاعدہ ڈیل اور معاہدہ ہوتا ہے ، کہ کتنے عرصے ڈاکٹر یہ دوا مطلوبہ تعداد میں لکھے گا ،اور میڈیکل ریپ باقاعدہ اس کی جانچ کرے گا کہ ڈاکٹر دوا لکھ بھی رہا ہے یا نہیں ؟
اب اس سلسلے میں میڈیکل اسٹور والے سے بھی بنا کر رکھنا پڑتی ہے ،کہ وہ یہ والی دوا منگوا کے رکھے اور اس کا متبادل دوا نہ چلا دے ، کچھ نہ کچھ میڈیکل اسٹور والا بھی مانگتا ہے جیسے کہ ڈائری ،پین ،موبائل کارڈ وغیرہ …
سوال یہ ہے کہ یہ رشوت ہے یا نہیں جب کہ اس میں نفع طے ہوتا ہے،وہ ان کی دوا بکوارہاہے، وہ انہیں تحائف اور غیر ملکی دوروں سے نواز رہا ہے ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک طرف تو رشوت، دوسری جانب مریض کے ساتھ دھوکہ، سستی دوا کو چھوڑ کر صرف اس دوا کو لکھنا جس میں خود کا فائدہ ہے،جس کو دوا کی کمپنی والے ڈاکٹر کی خدمات کا نام دیتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح دوا ساز کمپنی میں کام کرنا ٹھیک ہے ،جب کہ انہیں بعض اوقات تو نقد رقم تک ڈاکٹر کو دینا پڑتی ہے اپنی دوا کو فروخت کرنے کے لیے۔
تماشہ یہ بھی ہے کہ یہ عنایتیں صرف ان ڈاکٹرز پر ہیں جو اپنا ضمیر بیچ چکے ہیں ، جو ابھی بھی ان کمپنی سے اعراض کرتے ہیں ان کو کبھی بھی کمپنی نہ کھانا کھلاتی ہے، نہ باہر گھماتی ہے ، اور معاشرے اور عرف عام میں ایسے ڈاکٹرز کی عزت بھی نہیں ہے ۔
مدلّل جواب عنایت کریں تاکہ اس شر سے میں اپنے حلقے میں ڈاکٹرز کو بچا سکوں اور حق بھی واضح ہوجاے، کیوں کہ اس فتنے کو کوئی فتنہ سمجھتا ہی نہیں۔
نیز اس کاروبار کی دیگر نوکری کے بارے میں بھی ارشاد فرما دیں ، کہ مینجمنٹ سے لیکر کمپنی کے مالک تک ہر کسی کی ایک ترجیح ہوتی ہے کہ انہیں اپنی دوا بکوانی ہے…اس کے لیے لازمی میڈیکل ریپس کی مدد سے ڈاکٹرز کو فرمائشیں کی جاتی ہیں…اگر فرمائش نہ بھی کی جائے تب بھی دوا کی کمپنی کی اولین ترجیح ہوتی ہے کہ ڈاکٹر خوش رہے اور خوش کرنے کے لیے یہی راستے ہیں،ڈاکٹر بھی اگر شریف ہونے کی وجہ سے منہ سے کچھ نہ بھی مانگے تب بھی دل میں یہی آرزو رہتی ہے کہ اس کمپنی کی دوا لکھنے میں فائدہ زیادہ ہو، ایسی نوکری اور ایسی پالیسی بنانے والوں کی نوکری کا کیا حکم ہے جو اوپر سے ہم پر زور اور دباؤ ڈالتے ہیں کہ کچھ بھی کرو ڈاکٹر سے دوا لکھوا کر ہدف پورا کرو؟
ڈاکٹر حضرات خدمت خلق کی رو سے ایک حساس منصب سنبھالے ہوئے ہیں جہاں عوام الناس ان کے مشوروں پر اعتماد کرتے ہیں، ایسی صورت میں ان کا فریضہ بنتا ہے کہ مریض کے لیے وہ دوا تجویز کریں جس کی قیمت مناسب اور افادیت معیاری ہو، اس لیے کہ علاج میں اصل ”مریض“ ہے، جس کی ہر حال میں رعایت رکھنا ضروری ہے۔
کمپنی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے بلاوجہ مریض کو مہنگی دوا دے کر لوٹنا یا دوائی چلانے کی غرض سے تشخیص اور صحت کے اصولوں سے قطع نظر اپنے مطلب کی دوائیں تجویز کرکے مریض کی زندگی سے کھیلنا، دھوکادہی اور اپنے شعبے کے ساتھ بد دیانتی ہے، ایسا کرنا جائز نہیں، تاہم اگر کمپنی اور ڈاکٹر اس طرح سے معاملہ طے کریں کہ ڈاکٹر کمپنی کے نسخے لکھے گا او رکمپنی اس کو اس عمل پر اجرت دے گی، تواس کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اجرت متعین ہو اور نسخے لکھنے کی مدت یا اس کی تعداد متعین ہو، مجہول نہ ہو اور وہ نسخے مریض کے لیے مفید بھی ہوں، نیز ڈاکٹر کو اجرت میں کوئی بھی چیز دی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ آلہٴ معصیت نہ ہو، جیسے ٹی وی وغیرہ، واضح رہے کہ اس سے معاملے پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس معین چیز کا تقاضا ڈاکٹر کی طرف سے ہو یا خود کمپنی کی طرف سے اس کی پیش کش ہو۔
غیر شرعی منصوبہ بندی کی مذمت اپنی جگہ، البتہ جب تک کمپنی کا اصل کام حلال ہے، اس میں کام کرنا جائز ہو گا اور اس کی آمدنی کو حرام نہیں کہیں گے۔ ۔فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی