کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل عورتیں رمضان المبارک میں جن کو حیض آتا ہے وہ اسے دوائی کے ذریعے روکتی ہیں ، دوائی کھانے کے بعد ان کو حیض نہیں آتا، اور وہ یہ دوائی اس لیے استعمال کرتی ہیں ،تاکہ روزے نہ چھوٹ جائیں، بعد قضا ء کرنا مشکل ہوتا ہے، تو کیا عورتوں کا اس طرح کرنا جائز ہے یا نہیں؟کیا اس طرح حیض روک کر روزہ رکھنے سے روزہ ہو گا یا نہیں؟ کیا اس صورت میں اس عورت کے ساتھ جماع کرنا جائز ہے یا نہیں؟ شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔
حیض کا دار و مدار بالغہ عورت کے رحم سے خون آنے ، نہ آنے پر ہے،اوردوائی کے ذریعے جب خون بند کیا جائے اور خون ظاہر نہ ہو ، تو اس عورت پر حیض والے احکام جاری نہیں ہوں گے؛ لہذا اس صورت میں عورت کے لیے روزہ رکھنا،نماز پڑھنا اور اس کے ساتھ جماع کرناجائز ہوگا۔
البتہ حیض کا آنا ایک طبعی اور فطری چیز ہے،جو کہ عورت کی تندرستی کی علامت ہے،تو فطری عمل کو دوائی وغیرہ کے ذریعے روکنا نقصان سے خالی نہیں؛ لہذا اس سے اجتناب زیادہ بہتر ہے۔
لما في التتارخانية:
يجب أن يعلم بأن حكم الحيض والنفاس والاستحاضة لايثبت إلا بخروج الدم وظهوره وهذا ظاهر مذهب أصحابنا رحمهم الله وعليه عامة مشايخنا.
(كتاب الطهارة،نوع آخر في بيان أنه متى يثبت حكم الحيض والاستحاضة والنفاس،1486،فاروقية)
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 168/163