کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام اس مسئلہ سے متعلق کہ ایک آدمی کے دانتوں سے خون آتا ہے اور اس کی کوئی مقدار بھی متعین نہیں ہے، کسی وقت تھوڑا ہوتا ہے کہ اس کا رنگ تھوک سے مغلوب ہوتا ہے او رکسی وقت زیادہ آتا ہے کہ اس کا رنگ تھوک پر غالب ہوتا ہے اور اسی طرح سے اس کا کوئی وقت بھی متعین نہیں ہے ، نیند کی حالت میں بھی آتا ہے اور بیداری کی حالت میں بھی، گویا یہ دائمی مرض ہے، مگر کبھی کبھار ایسا دن بھی آجاتا ہے کہ جس میں بارہ گھنٹے تک خون بند رہتا ہے اور پھر دوبارہ اسی ترتیب سے شروع ہو جاتا ہے، یہ مرض کئی سالوں سے ہے، جس کا علاج بھی بہت کرایا گیا ہے ، مگر کچھ فرق نہیں ہے اور فی الحال اس کی کیفیت یہ ہے کہ اس کا منقطع ہونا غیر ممکن ہے ، تاکہ ایسے وقت کا انتظار کیا جائے کہ جس میں قضاء کی جائے، اور بعض اوقات بیداری کی حالت میں بھی خون غیر اختیاری طور پر حلق سے نیچے اتر جاتا ہے۔
اس سلسلے میں بعض علماء سے زبانی رجوع کیا گیا او رمریض کے نماز، روزے سے متعلق حکم پوچھا گیا تو ان کی آراء مختلف سامنے آئیں: بعض نے فرمایا کہ وہ ہر نماز کے لیے علیحدہ وضو کرکے نماز پڑھے گا اور اس کے روزے بھی صحیح ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ دانتوں سے نکلنے والا خون جسم کے اندر چلنے والے خون کی مانند ہے، جس طرح اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا اسی طرح اس سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا اور بعض علماء نے فرمایا کہ روزے صحیح ہیں، مگر بیداری کی حالت میں حتی الامکان خون نگلنے سے پرہیز کرے اور نیند کی حالت میں خون اندر جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیوں مرض دائمی ہے اور نیند کی حالت میں وہغیر مکلف ہے او راکثر علماء نے یہ فرمایا کہ خون اندر جانے سے اس کے روزے فاسد ہو گئے ہیں، لہٰذا وہ ایسے وقت کا انتظار کرے کہ جس میں خون رک جائے اور پھر قضاء کر لے اور بعض نے یہ فرمایا کہ جب قضاء کے وقت کا میسر ہونا ممکن نہیں تو پھر فدیہ ادا کردے، ہاں اگر صحت میسر ہو جائے تو پھر قضاء بھی کر لے۔
اب حال یہ ہے کہ ان جوابات کے بعد مریض بہت تذبذب کا شکار ہے کہ وہ کس کی بات پر عمل کرے ،اور دوسری بات یہ کہ حوالہ اور دلیل بھی زبانی چوں کہ کوئی نہیں دیتا اس لیے اطمینان حاصل نہیں ہوا، لہٰذا گزارش ہے کہ قرآن وحدیث او رکتبِ فقہ کے حوالوں کے ساتھ مسئلہ کے صحیح حکم سے آگاہ فرماکر مشکور ہوں۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص پر اگر ایک نماز کا وقت ایسا گزر گیا ہے کہ اس میں اسے خون مسلسل آتا رہا اور اسے اتنا وقت بھی نہ ملا کہ وہ اس خون کے رکنے کی حالت میں وضو کرکے نماز پڑھ سکے، تو وہ شرعاً معذور ہے، لہٰذا وہ ہر وقت کی نماز کے لیے نیا وضو کرکے اسی وقت کی فرض اور دیگر سنن ونوافل نمازیں پڑھا کرے، اس خون سے اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا، لیکن اگر کسی نماز کے پورے وقت میں اسے خون بالکل نہ آیا تو پھر وہ معذور نہیں رہے گا، اور اس خون سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔
اور روزے کی حالت میں اگر دانتوں سے خون نکل کر حلق سے نیچے اتر جائے اور وہ تھوک پر بھی غالب یا برابر ہو تو روزہ فاسد ہو جائے گا، اور صرف قضاء لازم آئے گی، البتہ اگر حلق سے نیچے اترنے میں شک ہو اور کسی طرف گمانِ راحج نہ ہو تو روزہ فاسد نہ ہو گا، اسی طرح اگر تھوک غالب ہو او ر خون کم ہو تب بھی روزہ فاسد نہیں ہو گا او راگر اکثر دانتوں سے خون آتا رہتا ہے اور وہ سونے کی حالت میں بلا اختیار حلق سے نیچے اتر جائے، تو عدم فساد کی گنجائش ہے، کیوں کہ اس صورت میں اس سے تحرز ممکن نہیں ہے ، تاہم اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ اگر روزے میں بلا اختیار خون حلق سے نیچے اتر جائے تو صحت کے بعد احتیاطاً اس روزے کی قضاء کرے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی