آج کل مسلمان عورتیں غیر مسلموں کی طرح بچے جننے کے لیے ہسپتال جاتی ہیں، جہاں مرد ڈاکٹر بھی بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات آپریشن مرد ڈاکٹر سے کروایا جاتا ہے اور ہر قسم کی عورتیں آتی ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرم وحیا کا احساس بھی جاتارہا۔ اگر ہندوپاک کی عورتوں کو یوں کہا جائے کہ اچھے ملک میں جاکر دائی یا مسلمان نرس سے عمل زچگی کراؤ اور بعض ہندوپاک کی عورتیں خاص طور پر عمل زچگی کے لیے دوسرے ملک جاتی ہیں، یہاں یعنی دوسرے ممالک برطانیہ وغیرہ میں ننانوے فیصد ڈاکٹرونرسیں غیر مسلم ہوتی ہیں۔
بچے کی پیدائش اگر آپریشن کے بغیر ممکن نہ ہو تو ایسے وقت میں اس ہسپتال کا انتخاب کرنا چاہیے جس میں عملہ مسلمان خواتین پر مشتمل ہو، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم خواتین ہی موجود ہوں، چاہے غیر مسلم ہوں اور یہ ممکن ہو سکتا ہے، ایسی صورت میں مرد ڈاکٹر سے علاج کروانا ناجائز اور حرام ہو گا۔ اگر ڈاکٹر عورت یا نرس دست یاب نہ ہو اور آپریشن کے بغیر پیدائش ممکن نہ ہو اور حالت اضطرار ہو تو مرد ڈاکٹروں سے علاج کروانے کی بھی گنجائش ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی