کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ پشتو کے بعض نعت خواں اس طرح کرتے ہیں کہ جب پشتو کا نیا گانا آتا ہے تو وہ نعت اسی گانے کی طرز پر پڑھتے ہیں، جبکہ اس نعت میں نبی کریم ﷺ کی اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا تذکرہ ہوتا ہے، بس فرق صرف الفاظ کا ہوتا ہے اور گانے کے ساتھ موسیقی بھی ہوتی ہے،باقی طرز گانے اور نعت دونوں کا ایک ہوتا ہے۔
(۱) کیا اس طرح گانے کے طرز پر نعت پڑھنا جائز ہے؟
(۲) کیا اس طرح نعتیں سننا درست ہے ؟
حمد و نعت کو گانے کے طرز پر بنانا ،پڑھنا اور اس کا سننا درست نہیں،کیونکہ اس میں گانے والوں کے ساتھ مشابہت اختیار کی جاتی ہے ،جو کہ ناجائز ہے، پھر اگر اس کے ساتھ موسیقی بھی ہوتو اس کی شناعت اور بھی بڑھ جاتی ہے، لہذا اس سے اجتناب کیا جائے ، البتہ اگر اتفاقاً مشابہت پیدا ہوگئی ہو تو اس پر مؤاخذہ نہیں ہوگا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
لما في فتح الباري:
واستدل بجواز الحداء على جواز غناء الركبان المسمى بالنصب وهو ضرب من النشيد بصوت فيه تمطيط وأفرط قوم فاستدلوا به على جواز الغناء مطلقا بالألحان التي تشتمل عليها الموسيقى وفيه نظر وقال الماوردي اختلف فيه فأباحه قوم مطلقا ومنعه قوم مطلقا وكرهه مالك والشافعي في أصح القولين ونقل عن أبي حنيفة المنع وكذا أكثر الحنابلة ونقل بن طاهر في كتاب السماع الجواز عن كثير من الصحابة لكن لم يثبت من ذلك شيء إلا في النصب المشار إليه أولا قال بن عبد البر الغناء الممنوع ما فيه تمطيط وإفساد لوزن الشعر طلبا للضرب وخروجا من مذاهب العرب وإنما وردت الرخصة في الضرب الأول دون ألحان العجم.
(كتاب الأدب،باب ما يجوز من الشعر والرجز والحداء ومايكره،10665: قديمي )
وفي المدخل لإبن الحاج:
وإنما يصير الشعر غناء مذموما إذا لحن وصنع صنعة تورث الطرب وتزعج القلب وهي الشهوة الطبيعية وليس كل من رفع صوته بالغناء لحن وألذ وأطرب فالممنوع والمكروه إنما هو اللذيذ المطرب. (فصل في السماع وكيفيته ومايمنع منه وما يجوز،2101،المكتبة العصرية)
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:170/216