کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ علیہ السلام سنی تو انبیاء کے لیے استعمال کرتے ہیں ،جب کہ شیعہ حضرت حسینؓ کے لیے، حالاں کہ بقیہ صحابہ رض کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ کیا حضرت حسینؓ کے لیے علیہ السلام استعمال کرنا چاہیے ،یا کہ وہ اعزازی الفاظ جو قرآن میں ہیں (رضی اﷲ عنہ)؟
”
علیہ السلام “
کا جملہ انبیاء کے ساتھ مختص ہے اور صحابہ کرام کے لیے رضی اﷲ تعالی عنہ کاجملہ دعائیہ استعمال ہوتا ہے، لہٰذا جس طرح دوسرے صحابہ کرام کے نام کے ساتھ رضی اﷲ تعالی عنہ کے دعائیہ کلمات کہے جاتے ہیں۔ ایسے ہی دعائیہ کلمات حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے نام کے ساتھ کہے جائیں، کیوں کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو علیہ السلام کہنے سے روافض سے مشابہت ہوتی ہے اور وہ حضرت حسین کو نبی کا درجہ دے کر علیہ السلام کہتے ہیں جو کہ کفر ہے لہٰذا اس سے بھی احتراز ضروری ہے
(کذا فی احسن الفتاوی، ص:٣٩١)وعن ابن عمر۔ رضی اﷲ عنھما۔ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ.'' مشکوٰۃ المصابیح، کتاب اللباس،٣٧٥/٢، قدیمی)
''فلا یقال: فلان علیہ السلام، فالواجب الاتباع و اجتناب الابتداع.'' (الحلبی الکبیر،٣، سہیل اکیڈیمی، لاہور)۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 16/395