کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جمعة المبارک کو صبح فجر کی نماز میں کیا نبی علیہ السلام سے مواظبت کے ساتھ ہر جمعہ کو سورہ سجدہ اور سورہ دھر کا پڑھنا ثابت ہے یا نہیں؟ اگر ثابت ہے تو کس درجہ میں؟ کیوں کہ ہمارے علاقہ میں ایک مولوی صاحب نے یہ ترتیب شروع کی ہے جس پر کچھ علماء نے بھی اعتراض کیا او رکہا کہ اس میں مقتدیوں پر مشقت ہے، کیوں کہ جب امام سورہ سجدہ کی تلاوت شروع کرے گا تو آیت سجدہ پڑھنے کے بعد جب امام سجدہ میں جائے گا تو اگر پیچھے کوئی سنتوں میں مشغول ہو یا کسی نے آیت سجدہ تو سنی لیکن سجدہ میں شامل نہ ہو سکا تو اب یہ آدمی کیا کرے اور وہسجدہ کرے یا نہیں؟
نبی علیہ السلام کے عمل اور احادیث کی روشنی میں وضاحت فرماکر تسلی بخش جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں۔
واضح رہے کہ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورہٴ سجدہ اور سورہٴ دھرکا پڑھنا مستحب ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے یہ سورتیں پڑھنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ، لہٰذا جو آدمی آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع میں مذکورہ سورتیں پڑھتا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے، البتہ امام کے لیے بھی ضروری ہے کہ پورا سال اس پر مداومت اور پابندی نہ کرے تاکہ عام لوگ ایک مستحب عمل کو فرض او رواجب نہ سمجھنے لگیں ،، بلکہ کبھی پڑھے اور کبھی نہ پڑھے، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے پڑھنا او رترک کرنا دونوں ثابت ہیں۔
رہی یہ بات کہ جو لوگ آیت سجدہ سن کر سجدہ میں شریک نہ ہوسکتے ہوں تو ان کو چاہیے کہ نماز کے بعد سجدہ کریں، ایک سجدے کو مشقت نہیں سمجھنا چاہیے، محض اپنی سستی کی وجہ سے کسی مستحب عمل پرپابندی لگانا درست نہیں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی