کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے بھائی نے اپنی بیو ی کے لڑائی جھگڑوں سے تنگ آکر اس کے باپ بھائی اور گلی والوں کے سامنے تین دفعہ طلاق دے دی تھی، پھر تھانے والوں اور کچھ رشتہ داروں کے کہنے پر اُسے اپنے گھر لے آیا ہے، میرے ابو فوت ہوچکے ہیں ،امی نے بھی بیٹے اور بہو کو اپنے گھرمیں رکھ لیا ہے، ان کو سب نے سمجھایا ہے کہ یہ حرام ہے لیکن امی اور بھائی کسی بات کو سننے پر راضی نہیں، برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ ہم بہنیں ماں، بھائی اور بھابی سے مل سکتی ہیں یا نہیں؟ اور جو رشتہ دار صلح کروانے میں شامل ہیں اُن سے بھی مل سکتے ہیں یا نہیں؟ ہماری وراثت کے مکان میں یہ حرام کام ہورہا ہے، اس کے لیے کیا حکم خداوندی ہے؟ اور میری باقی بہنیں یا بہنوئی جو ان سے ملتے ہیں ان سے ہمارا ملنا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ بیوی کو تین طلاقیں دینے کے بعد بیوی شوہر پر حرام ہو جاتی ہے ، اس کے بعد بغیر حلالہ شرعیہ کے بیوی سے تعلقات قائم کرنا کسی بھی طور پر جائز نہیں ہے۔
صورت مسئولہ اگر مبنی برحققت ہے تو شوہر اور ان کی مطلقہ کو چاہیے کہ وہ فوراً علیحدگی اختیار کریں او ر خاندان کے بااثر لوگوں کو چاہیے کہ وہ ان کو نرمی وملاطفت سے سمجھائیں اور اس گناہ کی سنگینی کا احساس دلائیں، اگر شوہر او ران کی مطلقہ جدائی اختیار کرتے ہیں او راپنے کیے پر توبہ کرتے ہیں، تو حسب سابق ان سے تعلقات استوار رکھے جائیں اور اگر وہ جدائی اختیار نہیں کرتے، تو ان سے تعلقات ختم کر دیے جائیں تاوقتیکہ وہ جدائی اختیار کریں اور توبہ کریں۔
باقی آپ کی والدہ او رجن لوگوں نے صلح کروائی ہے، سخت گہنگار ہیں، انہیں اپنے کیے پر توبہ کرنی چاہیے، البتہ ان سے تعلقات ترک نہ کیے جائیں، اسی طرح آپ اپنی بہنوں سے بھی مل سکتی ہیں اور والدہ سے ملاقات کر نے اپنے آبائی مکان بھی جاسکتی ہیں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی