کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے ہاں یہ رواج چَلا آرہاہے کہ کسی بھی بندے کا انتقال ہوتا ہے تو جب تک چالیس دن پورے نہیں ہوتے تو ہر جمعرات کو عورتوں کو جمع کرکے قرآن پڑھتے ہیں، پھر اس کے بعد بریانی آتی ہے، پھر رشتے داروں میں تقسیم ہوتی ہے، اس کے بعد جب چالیس دن مکمل ہوتے ہیں تو پھر عورتوں کو جمع کرکے چالیسواں کرتے ہیں ،پھر اس طرح جب سال مکمل ہوتا ہے تو پھر اسی طرح عورتوں کو جمع کیا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں اس طرح نہ کریں تو لوگ اور خاندان والے باتیں کرتے ہیں کہ فلاں بندے کا انتقال ہو گیا اس کے لیے کوئی دعا نہیں ہوتی۔
حالاں کہ متاثرہ گھر کے لوگ اور بچے ان کے لیے قرآن پڑھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں ،کیا خاندان والوں اور لوگوں کو جمع کرکے ہی دعا قبول ہوتی ہے؟
ہمارا دین اسلام قرآن وحدیث آیا اس بات کی اجازت دیتی ہے، اسی طریقے سے چالیسواں اور سال کرنا چاہیے اور قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟
تاکہ ہم لوگوں کو پتہ چلے صحیح طریقہ کیا ہے غلط طریقہ کیا ہے۔
قرآن کریم پڑھ کر میت کو ایصال ثواب کرنا، اسی طرح فقر اء ومساکین پر صدقہ کرکے میت کے لیے ایصال ثواب کرنا از روئے شرع جائز ہے، لیکن چالیس دن تک ہر جمعرات کو، اسی طرح چالیس دن یا سال مکمل ہونے پر رشتہ داروں اور اہل محلہ کو جمع کرکے قرآن پڑھوانے او رکھانے تقسیم کروانے کو لازم سمجھنا یہ غیر واجب کو واجب کا درجہ دینے کی طرح ہے جو کہ بدعت اور مذموم ہے، نہ قرآن میں اس کا کہیں ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم میں اور اجتماع اگر عورتوں کا ہو تو اس میں اور زیادہ قباحت آجاتی ہے۔
جو لوگ اس عمل کے نہ کرنے پر طعنہ زنی کرتے ہیں، انہیں اپنے اس فعل سے باز رہنا چاہیے، البتہ ان لوگوں کی طعنہ زنی کی وجہ سے اس کام کو کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ ایسے کام میں جس سے الله تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو بندوں کی اطاعت جائز نہیں ہے۔
بہرحال مرحوم کے گھر والوں کا خود قرآن پڑھ کر ایصال ثواب کرنا یہ زیادہ باعث قبولیت ہے اور جہاں تک تعلق ہے رشتہ داروں کو جمع کرکے قرآن پڑھوانے کا تو یہ اگر بغیر تعیین ایام کے ہو تب بھی ریاء ونمود سے خالی نہیں ہوتا، نیز اس پر کھانا وغیرہ بھی کھلایا جاتا ہے جو کہ ناجائز ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے اور اس رواج کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی