کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ
۱۔ اگر کوئی شخص کوئی گناہ کرتا ہے تو کیا اس کو اس کی سزا ملے گی، یا نہیں؟ اگر ملتی ہے تو اس میں بندے کا کیا قصور ہے؟ کیوں کہ یہ تو پہلے سے تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔
۲۔ کیا تقدیر میں تبدیلی آسکتی ہے، یا یہ ازل سے ابد تک ایک ہی جیسی رہے گی ۔
۳۔ ۱۵ شعبان کو بندے کے متعلق جو فیصلے ہوتے ہیں،کیا اس میں بھی تقدیر کا دخل ہوتا ہے،یا نہیں؟ وضاحت فرمائیں۔
خالق کائنات نے تمام مخلوقات کے اعمال کی تفصیل کو ان کی پیدائش سے پہلے لوح محفوظ میں منتقل کر دیا ہے، اس کو تقدیر کہتے ہیں،اس میں یہ موجود ہے کہ فلاں شخص مومن ہو گا اور فلاں کافر، کون بد بخت ہو گا کون نیک بخت، اس میں اس بات کی بھی تفصیل ہے کہ فلاں شخص فلاں وقت کیا کرے گا؟ اور چونکہ اﷲ رب العزت عالم الغیب ہیں، اس لیے بندوں کے افعال تقدیر کے بالکل مخالف نہیں ہو سکتے، یعنی اگر تقدیر میں لکھا ہو کہ زید کافر ہو گا اور کفر پر ہی مرے گا، تو دنیا میں ایسا ہی ہو کررہے گا، یہ محال ہے کہ زید مسلمان ہوجائے۔
اس پر وہ مشہور اعتراض لازم آتا ہے جو سوال( نمبر۱)میں موجود ہے کہ اگر واقعتا ایسا ہی ہو کہ بندہ اﷲ تعالیٰ کے فیصلے کے خلاف نہیں کر سکتا، تو پھر اس کو سزا کیوں دی جاتی ہے ؟ حالاں کہ وہ تو عاجز محض ہے، وہ اﷲ تعالیٰ کے فیصلے کے خلاف کر ہی نہیں سکتا، انصاف کی بات تو یہ تھی کہ اس کو سزا ہی نہ دی جاتی، حالاں کہ اس کو سزا ملتی ہے، اس سوال کے جواب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان عاجز محض نہیں ، اﷲ تعالیٰ نے انسان کو عاجز محض نہیں بنایا ہے بلکہ اس کو اختیار دیا ہے ، اب انسان جو بھی کام کرتا ہے ،اپنے اختیار سے کرتا ہے ، عام طور پر لوگوں کو اس بات سے غلطی فہمی ہوتی ہے کہ چوں کہ اﷲ تعالی ٰ نے پہلے ہی سے لکھ دیا ہے کہ فلاں شخص ایسا کرے گا، تو اس وجہ سے وہ مجبور ہو گیا،حالاں کہ اﷲ تعالیٰ کے پہلے سے لکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان مجبور ہو گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو اس انجام کی خبر تھی، ان معلومات کو اﷲ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں منتقل کر دیا، اگر یہ اﷲ کے علم میں رہتیں تو کوئی مجبور نہ ہوتا، اگر لوح محفوظ میں لکھ دی گئیں تب بھی کوئی مجبور نہیں، صرف اس کی تفصیل ایک جگہ لکھی رکھی ہے ، اس سے کوئی مجبور نہیں ہوتا، اﷲ تعالیٰ کو اس بات کا علم تھا کہ میں اس انسان کو اس کام کے کرنے اور نہ کرنے کا اختیار دوں گا اور وہ اس اختیار کو استعمال کرکے فلاں عمل کو اختیار کرے گا،مثلاً : اﷲ تعالیٰ نے زید کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ میں اس کو ایمان او رکفر میں اختیار دوں گا او ران دونوں میں سے وہ کفر کو اختیار کرے گا؛ لہٰذا وہ کافر پیدا ہو گا کبھی مسلمان نہیں ہو گا، تو معلوم ہوا کہ زید مجبور نہیں تھا ،مختار تھا،زیادہ سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کو اس کا پہلے سے علم تھا اس سے اس کے اختیار پر کوئی فرق نہیں پڑا، اس کو ایک آسان مثال سے سمجھ لیں کہ اگر کوئی ڈاکٹر کسی مریض کے بارے میں کہے کہ یہ مریض ایک ہفتے سے زیادہ نہیں بچے گا یہ ایک ہفتے کے اندر اندر مرے گا اور پھر وہ ہفتے کے اندر ہی مر جاتا ہے، تو اس صورت میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ مریض ڈاکٹر کے کہنے سے مر گیا بلکہ ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ ڈاکٹر کے کہنے سے نہیں مرا ہے بلکہ اس نے تو صرف اس کی نازک حالت کو دیکھ کر خبری دی تھی، تو ایسا ہی اﷲ تعالیٰ کو پہلے سے معلوم ہونے اور اس معلوم کو لوح محفوظ میں نقش کر دینے سے انسان مجبور نہیں ہوتا، اس کو اختیار دیا جاتا ہے۔ لہٰذا جرم کرنے کی وجہ سے وہ سزا کا مستحق ہو گا۔
۲۔ بعض حضرات نے تقدیر کی دو قسمیں بتائیں ہیں: ۱۔ تقدیر مبرم ۲۔ تقدیر معلّق۔
تقدیر مبرم: یہ اٹل فیصلے کو کہتے ہیں، اس میں تبدیلی کا امکان ہی نہیں۔
تقدیر معلق : یہ بدلتی رہتی ہے کیوں کہ تقدیر معلق کہتے ہیں ” مشروط تقدیر” کو یعنی اصل میں یہ تقدیر کسی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے کہ فلاں شخص اگر حج ادا کرے گا تو اس کی عمر ۲۰ سال ہو گی لیکن اگر حج ادا نہیں کرے گا تو ۱۵ سال ہو گی۔ اس طرح فلاں شخص اگر والدین کی خدمت نہیں کرے گا تو اس کی ۲۰ سال ہو گی ، لیکن اگر خدمت کرے گا تو اس کی عمر بڑھ جائے گی۔ اس تقدیر کو تقدیر معلق کہتے ہیں اور یہ تقدیربدلتی رہتی ہے۔
لیکن بعض حضرات نے اس تقسیم کو صحیح قرار نہیں دیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ اصل میں تقدیر مبرم ہوتی ہے، تقدیر معلق کا کوئی وجود نہیں، اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کو تو معلوم ہے کہ وہ حج کرے گا، یا نہیں؟ اور وہ والدین کی خدمت کرے گا، یا نہیں؟ اس لیے وہ پہلے سے اتنی عمر لکھ لیتے ہیں؛ لہٰذا اس تشریح کے مطابق تقدیر نہیں بدلتی۔
۳۔ ۱۵ شعبان کو صرف ایک سال کا فیصلہ ہوتا ہے اور تقدیر میں پوری عمر کی کارکردگی لکھی ہوتی ہے اور ۱۵ شعبان کوکیے گئے تمام فیصلے تقدیر میں موجود ہوتے ہیں، گویا کہ تقدیر میں یہ بھی موجود ہوتا ہے کہ فلاں شخص کے بارے میں ۱۵ شعبان کو یہ یہ معلومات فرشتوں کے سپرد کی جائیں گی۔
'' والقدر سرّ من أسرار اﷲ تعالیٰ، لم یطلع علیہ ملکاً مقرباً ولا نبیاً مرسلاً، ولا یجوز الخوض فیہ والبحث عنہ بطریق العقل.'' (مرقاۃ الفاتیح، کتاب الإیمان، باب الإیمان بالقدر:٢٥٦/١، رشیدیہ)
وَعَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ تَکَلَّمَ فِی شَیْء ٍ مِنَ الْقَدَرِ سُئِلَ عَنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ لَمْ یَتَکَلَّمْ فِیہِ لم یسْأَل عَنہُ.'' (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الإیمان، باب الإیمان بالقدر ٢٣/١، قدیمی)
''وَالْمُرَاد أَنَّ اللَّہ تَعَالَی عَلِمَ مَقَادِیر الْأَشْیَاء وَأَزْمَانہَا قَبْل إِیجَادہَا ، ثُمَّ أَوْجَدَ مَا سَبَقَ فِی عِلْمہ أَنَّہُ یُوجَد ، فَکُلّ مُحْدَث صَادِر عَنْ عِلْمہ وَقُدْرَتہ وَإِرَادَتہ ، ہَذَا ہُوَ الْمَعْلُوم مِنْ الدِّین بِالْبَرَاہِینِ الْقَطْعِیَّۃ ، وَعَلَیْہِ کَانَ السَّلَف مِنْ الصَّحَابَۃ وَخِیَار التَّابِعِینَ.'' (فتح الباری، کتاب الإیمان، باب سوال جبریل النبی صلی اﷲ علیہ وسلم:١٥٨/١، قدیمی)
''إِذِ الْمُعَلَّقُ، وَالْمُبْرَمُ کُلٌّ مِنْہُمَا مُثْبَتٌ فِی اللَّوْحِ غَیْرُ قَابِلٍ لِلْمَحْوِ، نَعَمِ الْمُعَلَّقُ فِی الْحَقِیقَۃِ مُبْرَمٌ بِالنِّسْبَۃِ إِلَی عِلْمِہِ تَعَالَی، فَتَعْبِیرُہُ بِالْمَحْوِ إِنَّمَا ہُوَ مِنَ التَّرْدِیدِ الْوَاقِعِ فِی اللَّوْحِ إِلَی تَحْقِیقِ الْأَمْرِ الْمُبْرَمِ الْمُبْہَمِ الَّذِی ہُوَ مَعْلُومٌ فِی أُمِّ الْکِتَابِ، أَوْ مَحْوُ أَحَدِ الشِّقَّیْنِ الَّذِی لَیْسَ فِی عِلْمِہِ تَعَالَی، فَتَأَمَّلْ.'' (مرقاۃ الفاتیح، کتاب الإیمان، ٢٥٧/١، رشیدیۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی