کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید، عمر، بکر او رخالد ایک کاروبار میں شریک ہیں اس کاروبار میں زید کا ایک لاکھ روپیہ گم ہو گیا، اب زید کا شک ان تینوں پر ہے نہ تو اس کے پاس گواہ ہے اور نہ قسم دینے کے لیے تیارہے، لیکن ایک مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میں اس کو تعویذ یا دم کے ذریعے معلوم کردوں گا، کیا اس طرح کرنا شریعت مطہرہ کی رو سے جائز ہے، یا نہیں ؟اگر اس طرح کی کوئی صورت جواز ہے تو بیان فرمائیں۔
محض شک کی بنیاد پر کسی پر چوری ثابت نہیں ہو سکتی تاوقتیکہ شرعی گواہ موجود نہ ہوں،باقی جہاں تک تعویذ وغیرہ کے ذریعے چور معلوم کرنے کا مسئلہ ہے، تو ہمارے اکابر نے اس کو ناجائز لکھا ہے، اس لیے کہ جس کا نام نکلتا ہے اسی کو ہی یقینی طور پر چور سمجھا جاتا ہے،جب کہ شرعاً تعویذ حجت نہیں ہے،لہٰذا اس کے ذریعے معلوم ہونے والے شخص کو یقینی طور پر چور سمجھنا صحیح نہیں، اس لیے کہ یہ نصِ قرآن کے بھی خلاف ہے،قرآن کریم میں ہے :(وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ به عِلْمٌ)ایسی چیز کے پیچھے مت پڑو جس کا علم نہ ہو۔” یہاں ”علم”سے مراد شرعی دلیل ہے اور عملیات شرعی دلیل نہیں ہیں بلکہ محض ایک قرینہ ہیں، جس کو سمجھنے کے بعد شرعی حدود میں رہتے ہوتے مزید ایسے شخص کے بارے میں تحقیق کی جاسکتی ہے۔(عملیات وتعویذات اور اس کے شرعی احکام،ص:١٠٩۔١١٠،وفتاوی محمودیہ،ص:٢٧،ج:١٥)
''أجمع العلماء علی جوازالرقیۃ عند اجتماع ثلاثۃ شروط: لن یکون بکلام اﷲ تعالیٰ وبأسمائہ وبصفاتہ، وباللسان العربی، أو بما یعرف معناہ من غیرہ، وأن یعتقد أن الرقیۃ لا تؤثر بذاتھا بل بذات اﷲ تعالیٰ.'' (فتح الباری، کتاب الطب:١/١٩٥، دارالفکر)
''منھم أنہ یعرف الامور بمقدمات یستدل بھا علی موافقھا من کلام من یسألہ أو حالہ أو فعلہ وھذا یخصونہ باسم العراف کالمدعی معرفۃالمروق ونحوہ. (رد المختار: مطلب فی الکھانۃ:١/٣٤، سعید)
''لایأخذ الفال من المصحف.'' (شرح الفقہ الاکبر:١٤٩، قدیمی).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی