کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بی سی پر زکوٰة کاطریقہ کار کیا ہو گا؟
بی سی کی حقیقت قرض کی سی ہے کہ مثلا ًدس آدمی باہمی رضامندی سے ماہانہ ایک، ایک ہزار روپے جمع کرتے ہیں اور یہ طے کرتے ہیں کہ ہر مہینہ ایک آدمی کو جمع شدہ رقم دی جائے گی اور آدمی کی تعیین قرعہ کے ذریعہ سے پہلے ہی کر لیتے ہیں کہ اس مہینہ فلاں آدمی ہے اور آئندہ دوسرا، اسی طرح دس کے دس مکمل ہو جاتے ہیں۔
اس سے یہ واضح ہوا کہ ہر آدمی بی سی ملنے سے پہلے قرض دینے والا ہوتا ہے اور بی سی ملنے کے بعد قرض لینے والا ہوتا ہے ، مثلاً ایک آدمی کی باری پانچویں مہینہ میں آئی تو اب وہ آدمی پانچ مہینہ تک دوسروں کو قرض دے رہا تھا اور اب پانچویں مہینہ میں بی سی ملنے کے بعد وہ پانچ ہزار کا مقروض ہوجائے گا بقیہ دسویں مہینہ تک۔
اب بی سی پر زکوٰة کا طریقہ کا ریہ ہو گا کہ جس دن اس شخص کی زکوٰة کا سال پورا ہوتا ہے ، مثلاً یکم رمضان، اس دن اگر وہ بی سی وصول کر چکا ہے تو جتنے مہینوں کی رقم ادا کرنی باقی ہے ، اتنی رقم کے بقدر مقروض ہے، اس قرض کو اپنے دوسرے قابل زکوٰة مال سے نکال کر بقیہ کی زکوٰة ادا کرے، اگر اس دن تک اس نے بی سی وصول نہیں کی تو جتنے پیسے وہ بی سی میں جمع کر رہا ہے گویا اس نے دوسروں کو قرض دیئے ہیں اور قرض کی زکوٰة وصولی کے بعد دینی ہوتی ہے، لہٰذا اس پر فی الحال اس رقم کی زکوٰة ادا کرنا فرض نہیں، بی سی وصول کرنے کے بعد اس میں سے جتنی رقم آئندہ بی سی میں بھرنی ہے اس کو نکال کر باقی گذشتہ سالوں کی بھی زکوٰة ادا کرے ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی