کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ کسی آدمی کی بیوی کا انتقال ہواجائے ، تو اس آدمی کا اس کے بعد اپنے سسرال جانا جائز ہے ،یا نہیں ؟ نیز اس آدمی کی سسرال کے ساتھ رشتہ داری ختم ہوگئی ہے ، یا برقرار ہے ؟
مذکورہ آدمی کے لیے سسرال کے ہاں ساس وغیرہ کے ساتھ ملاقات کرنے کے لیے جانے میں کوئی حرج نہیں، البتہ ساس کے علاوہ جن عورتوں سے پردہ کرنے کا حکم ہے ان سے پردہ کرنا ضروری ہے، اور اس آدمی کا سسرال کے ساتھ رشتہ اس اعتبار سے ختم ہوگیا ہے ، کہ بیوی کی وجہ سے جن رشتہ داروں سے نکاح کرنا نا جائز تھا، اب ان سے نکاح کرنا جائز ہے، البتہ ساس کے ساتھ رشتہ اب بھی باقی ہے، اور اس کے ساتھ نکاح کرنا ہمیشہ کے لیے ناجائز ہے ۔
لما في الهداية:
"قال ولا بأم امرأته التي دخل بها أو لم يدخل لقوله تعالى { وأمهات نسائكم } من غير قيد الدخول".(كتاب النكاح،فصل في المحرمات،2/687،ط:رشيدية)
وفي الشامية:
"قوله ( مصاهرة ) كفروع نسائه المدخول بهن وإن نزلن وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح وإن علون وإن لم يدخل بالزوجات". (كتاب النكاح،فصل في المحرمات،4/107،ط:رشيدية)
وفيه أيضا:
"فرع ماتت امرأته له التزوج بأختها بعد يوم من موتها كما في الخلاصة عن الأصل وكذا في المبسوط لصدر الإسلام والمحيط والسرخسي والبحر والتاترخانية وغيرها من الكتب المعتمدة وأما ما عزي إلى النتف من وجوب العدة فلا يعتمد عليه وتمامه في كتابنا تنقيح الفتاوى الحامدية ". (كتاب النكاح،فصل في المحرمات،4/122،ط:رشيدية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 174/294