کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے تین چچا (جو ہم تین بھائیوں کے سُسر بھی ہیں) اور ان کی اولادیں ہماری جان کی دشمن ہیں،کئی دفعہ میرے والد صاحب اور میرے بڑے بھائی پر حملہ آور ہوئے ہیں،اور لڑائی کے دوران میرا بازو بھی ٹوٹا ہے میرے سالوں سے اور ہمارے گھر میں رکھی ہوئی لکڑیوں کو رات کے اندھیرے میں آگ لگائی ہے، ان لکڑیوں کی تعداد تقریباً 3ٹرالیاں تھیں،کیا ان حالات میں:
1) ہم اپنی بیویوں کو میکے جانے سے روک سکتے ہیں یا فون پر رابطہ کرنے سے؟
2) اگر میری بیوی میری والدہ کو بتا کر 5سے 6گھنٹے کے لیے چلی جاتی ہے اپنے میکے میں،جب کہ میں اور میرے بچے کراچی میں رہتے ہیں، میری بیوی کے میکے جانے پر اور اس کے بعد والدین سے رابطہ رکھنے پر میرے بڑے بھائی (جن پر لڑنے کے لیے حملہ کرتے ہیں)اور والد صاحب نے ناراض ہوکر میری بیوی کو میکے بھیج دیا،شرعی لحاظ سے کیا یہ عمل ٹھیک ہے؟
3) کیا میں اپنے والدین کی اجازت کے بغیر اپنی بیوی کو واپس بُلاسکتا ہوں؟
واضح رہے کہ یہ بات کسی طور پر درست نہیں کہ گھریلو جھگڑے اور فسادات کی بناء پر آپس میں ناچاقیاں پیدا کی جائیں، بلکہ درست بات یہ ہے کہ آپس میں مل جل کر اتحاد واتفاق اور اخوت وبھائی چارگی کے ساتھ رہیں اور فرمان باری تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کریں کہ :﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾(النساء:103)۔
1) صورت مسئولہ میں کسی شخص(خاوند) کے لیے یہ بات درست نہیں کہ وہ اپنی زوجہ کو میکے جانے (والدین سے ملنے)سے روکے،لہٰذا شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ شوہر کم از کم ہفتہ میں ایک مرتبہ یا مہینے میں ایک مرتبہ یا حسب ضرورت والدین سے ملنے کی اجازت دے اور سال میں ایک مرتبہ دیگر رشتہ داروں (محارم) سے ملنے کی اجازت دے،چنانچہ آپ کے لیے یہ درست نہیں کہ آپ اپنی زوجہ کو میکے جانے یا والدین سے ملنے روکیں۔
2،3) اگر والدین کسی شرعی وجہ کے بغیر آپ کی بیوی سے ناراض ہوکر گھر بھیجتے ہیں، تو اُن کا بلاوجہ بھیجنا درست نہیں،البتہ اگر وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتی، اُن کی گستاخی کرتی ہو،تو اس کو تنبیہ کی جائے اور اُسے سمجھانے کی کوشش کی جائے ،لیکن ان سے قطع تعلق کرنا یا بلاوجہ گھر بھیجنا درست نہیں۔
لہٰذا آپ کی بیوی اگر اپنے حق پر ہے، تو بلاوجہ آپ کے والدین اور بھائیوں کا اُن کوگھر سے نکال دینا غلط ہے،آپ کو چاہیے کہ خوب مصلحت کے ساتھ والدین اور بھائیوں کو راضی کریں اور ساتھ اللہ تعالیٰ سے بھی اس معاملے میں عافیت طلب کریں۔
لما في الهندیة:
وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها،أو أمها،أو أحدا من أهلها من الدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك قال بعضهم:لا يمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة ، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها ، وبه أخذ مشايخنا-رحمهم الله تعالى- وعليه الفتوى كذا في فتاوى قاضي خان وقيل:لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرة ، وعليه الفتوى كذا في غاية السروجي وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر،وقال مشايخ بلخ في كل سنة وعليه الفتوى،وكذا لو أرادت المرأة أن تخرج لزيارة المحارم كالخالة والعمة والأخت فهو على هذه الأقاويل كذا في فتاوى قاضي خان وليس للزوج أن يمنع والديها وولدها من غيره وأهلها من النظر إليها وكلامها في أي وقت اختاروا هكذا في الهداية .(کتاب الطلاق،الباب السابع عشر:1/604-605،ط:دارالفکر،بیروت).
وفي التنویر مع الدر:
(ولا يمنعها من الخروج إلى الوالدين) في كل جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار….. (ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة).
(کتاب الطلاق:5/328-330،ط:رشیدیة).
وفي رد المحتار:
ولا يمنعهما من الدخول إليها في كل جمعة وغیرهم من الأقارب في کل سنة هوالمختار اھ.
(کتاب الطلاق:5/329،ط:رشیدیة).
وفي سنن إبن ماجة:
عن عائشة رضي الله عنها:أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال«لو أمرت أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها.ولو أن رجلا أمر امرأة أن تنقل من جبل أحمر إلى جبل أسود ومن جبل أسود إلى جبل أحمر لكان نولها أن تفعل»(أبواب النکاح،[رقم الحدیث:1856]ص:331،ط:دارالسلام).
وفي مشکاة المصابیح:
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم:«لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها»(باب عشرة النساء:2/281،ط:قدیمي).
وفي مرقاة المفاتیح:
عن معاذ قال:أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات قال لا تشرك بالله شيئا وإن قتلت وحرقت ولا تعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك…….(ولا تعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق….(ومالك) : ….أما باعتبار أصل الجواز فلا يلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاء شديدا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها.(کتاب الأیمان،الفصل الثالث:1/235،ط:رشیدیة) فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 172/242,243