بیع مکمل ہوجانے کے بعد خیار عیب کی وجہ سے مشتری کا ثمن میں کمی کرنا

Darul Ifta mix

بیع مکمل ہوجانے کے بعد خیار عیب کی وجہ سے مشتری کا ثمن میں کمی کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ خالد نے عمر پر  ایک موٹر دس لاکھ روپے میں بیچ دی،اور عمر نے دس لاکھ میں سے  پانچ لاکھ روپے  نقد دیا اور باقی پانچ لاکھ روپے  ایک مہینہ بعد دینے کا وعدہ کیا ،لیکن ایک، دو  ہفتے بعد اس موٹر میں عیب نکل آیا ،اب عمر (مشتری ) بائع  (خالد ) سے کہتا ہے کہ باقی پانچ لاکھ روپے میں سے دو لاکھ روپے آپ کو دیتا ہوں اور تین لاکھ روپے موٹر میں عیب کی وجہ نہیں دیتا ہوں (جبکہ بائع اور مشتری کے درمیان جب معاملہ ہورہا تھااس وقت بائع نے مشتری کو مبیع کی ہر شئی سے آگاہ کیا تھااب مشتری کہتا ہے کہ انجن پرانا ہے جبکہ یہ  بات  معاملہ طے کرتے وقت  بتائی گئی تھی اور مشتری نے رضامندی کا اظہار بھی کیا تھا) اب سوال یہ ہے کہ مشتری (عمر ) کے لیے اس عیب کی وجہ سے باقی تین لاکھ روپے نہ دینا جائز ہے ،یا نہیں ؟ شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں  ۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر واقعی طور پر بیع کے وقت خالد نے عمر کو گاڑی کے انجن کا پُرانا ہونا بتایا ہو، اور عمر نے قبول کرلیا ہو، تو اس سے عقد مکمل ہوچکا ،لہٰذا عقد کے مکمل ہونے کے بعد عمر کو بائع کی رضامندی کے بغیر گاڑی واپس کرنا،یا قیمت میں کمی کروانا جائز نہیں ہے،اور عمر کا یہ کہنا کہ گاڑی کا انجن پُرانا ہے،اس لیے تین لاکھ روپے کم دوں گا،یہ کہنا صحیح نہیں،بلکہ عقد میں جوقیمت طے ہوئی ،یعنی دس لاکھ روپے  پورے دینے ہوں گے،یا باہمی رضامندی سے بیع کو ختم کردیں۔

لما في الدر مع الرد:

وَكَذَا كُلُّ مُفِيدِ رِضًا بَعْدَ الْعِلْمِ بِالْعَيْبِ يَمْنَعُ الرَّدَّ وَالْأَرْشَ.

(قَوْلُهُ:وَمِنْهُ الْعَرْضُ عَلَى الْبَيْعِ)…..وَقَدَّمْنَا عَنْ الذَّخِيرَةِ أَنَّ قَبْضَ الْمَبِيعِ بَعْدَ الْعِلْمِ بِالْعَيْبِ رِضًا بِالْعَيْبِ.

(کتاب البیوع،مطلب:فیما یکون رضا بالعیب ویمنع الرد،7/208-209،ط:رشیدیة).

وفي الهدایة:

وإذا اطلع المشتري على عيب في المبيع فهو بالخيار إن شاء أخذه بجميع الثمن وإن شاء رده لأن مطلق العقد يقتضي وصف السلامة فعند فواته يتخير كيلا يتضرر بلزوم ما لايرضى به وليس له أن يمسكه ويأخذالنقصان لأن الأوصاف لا يقابلها شيء من الثمن في مجرد العقد ولأنه لم يرض بزواله عن ملكه بأقل من المسمى فيتضرر به ودفع الضرر عن المشتري ممكن بالرد بدون تضرره والمراد به عيب كان عند البائع ولم يره المشتري عند البيع ولا عند القبض لأن ذلك رضا به.(باب خیار العیب،3/44،45،ط:رشیدیة).

وفي البدائع:

وأما بيان ما يبطل به حق الرجوع بعد ثبوته وما لا يبطل فحق الرجوع يبطل بصريح الإبطال وما يجري مجرى ………. ويسقط أيضا بالرضا بالعيب وهو نوعان صريح وما يجري مجرى الصريح ودلالة فالصريح هو أن يقول رضيت بالعيب الذي به أو اخترت أو أجزت البيع وما يجري مجراه والدلالة هي أن يتصرف في المبيع بعد العلم بالعيب تصرفا يدل على الرضا بالعيب.(کتاب البیوع،بیع بعض الطعام دون البعض،4/570،ط: رشیدیة). فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر:171/196