کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آیا بہو پر اپنے ساس اور سسر کے کیا حقوق شرعاً لازم ہیں اور وہ کون کون سے ہیں؟
درآنحالیکہ سسر نے اپنی بہو کو ہرسہولت میسر کی ہے ، مثلاً رہائش نان ونفقہ اور دیگر ضرورت وغیرہ… کیا ساس اور سسر ان والدین کے قائم مقام ہیں یانہیں؟ اخلاق او رمروت ودیانت داری کا تقاضہ کیا ہے کہ وہ اپنے ساس وسسر کی خدمت کرے یا نہ کرے ، اگر کرے تو وہ کیا اور کتنے حقوق ہیں؟
براہ کرم تفصیل سے جواب مرحمت فرمائیں۔
جاننا چاہیے کہ ساس اور سسر بلاشبہ بہو کے والدین کے قائم مقام ہیں ، اخلاق او رمروّت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ بہو اپنے ساس اور سسر کی خدمت میں حتی المقدور سعی کرے اور ان کی خدمت کو اپنی سعادت جانے، خصوصاً جب کہ سسر کی طرف سے اس کو ہر طرح کی سہولت میسر ہے ۔ لیکن بہو پر ساس اور سسر کی خدمت شرعاً لازم نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بیوی کے لیے شوہر سے ایسی رہائش گاہ کا مطالبہ کرنا جائز ہے جہاں شوہر کے کسی رشتہ دار مثلاً: ماں ، باپ، بہن، بھائی وغیرہ کا دخل نہ ہو۔ (اگرچہ وہ گھر کا ایک علیحدہ حصہ یا کمرہ ہی کیوں نہ ہو ، جس میں تمام ضروریاتِ زندگی، مثلاً باورچی خانہ اور بیت الخلاء وغیرہ موجود ہیں) تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ حقوقِ زوجیت نبھا سکے۔ نیز اسلام نے بیوی کے نان نفقہ کی ذمے داری شوہر پر عائد کی ہے ، نہ کہ ساس اور سسر پر، تاہم اگر ساس اور سسر اپنی بہو پر خرچ کرتے ہیں تو یہ ان کا بہو پر احسان ہے ۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے : ﴿ھل جزاء الإحسان إلاَّ الإحسان﴾
احسان کا بدلہ بھی احسان سے دیا جاتا ہے۔ لہٰذا حسن معاشرت، اخلاق اور مروّت کا تقاضہ وہی ہے جو اوپر ذکر کر دیا گیا کہ بہو حتی المقدور ساس اور سسر کی خدمت کرے اور ان کے راحت وآرام کا مکمل خیال رکھے تاکہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ اگر ساس، سسر بہو کو اپنی بیٹی اور بہو ساس ، سسر کو والدین کی طرح سمجھے تو کسی گھرانے کے جنت نظیر بننے میں کوئی شک نہیں۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی