کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ
۱۔ ایک بندہ جو سعودی عرب میں ہے ، اور اس کی ایک بیوہ بہن جو کہ مستحق زکوۃ ہےاور پاکستان میں رہتی ہے ، یہ بندہ سعودی عرب میں بہن سے پوچھے بغیر لو گوں سے اسی کی لئے صدقہ فطر لیتاہے، تو ان کا یہ عمل شرعا کیسا ہے ، اور ان لوگوں کا صدقۃ الفطر کب ادا ہو گا جب ان پیسوں پر مذکورہ بھائی قبضہ کرے ، یا اس وقت جب بہن تک پہنچ جائے ۔
۲۔بھائی پر بعینہ اس مذکورہ رقم کا بہن کو حوالہ کرنا ضروری ہے یا استبدال بھی کر سکتے ہیں ؟ حالانکہ وہ وہاں لوگوں سے سعودی کرنسی ( ریال ) لیتے ہیں اور پھر ان کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرتے ہیں یا بینک کے ذریعے بھیجتے ہے اور بہن یہاں اس کو پا کستانی کرنسی کی شکل میں وصول کرتی ہے ، تو کیا یہ شرعا درست ہے اس سے ان لوگوں کا صدقہ فطر ادا ہو گا ؟
اگر مذکورہ رقم اس بھائی سے ھلاک ہو جائے یا وہ ان کو اپنے کسی کام میں لگائے اور پھر ان کی بقدر پیسے بہن کو بھیجے ، تو کیا صدقہ فطرادا ہو گا ؟ اگر وہ بھائی بہن سے اجازت لے کر مذکورہ کام(لوگوں سے اسی کی لئے صدقہ فطر وصول لے) کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
نیز اگر مذکورہ شخص کی بہن صاحب نصاب ہو اور وہ یہ کام(لوگوں سے اسی کی لئے صدقہ فطر وصول لے) کرے تو شرعا اس کی کیا حیثیت ہے ؟ ازراہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں، شکریہ۔
۱۔ صورت مسئولہ میں بھائی کو بہن کی طرف سے اگر صراحۃ اجازت ہو ، تو اس کے لیے صدقۃالفطر لینا شرعا درست ہے ،اور بھائی بہن کی طرف سے وکیل ہوگا، جب وکیل (بھائی ) ان پیسوں پر قبضہ کرے گا،تو ان لوگوں کا صدقۃ الفطر ادا ہو جاےگا،اگر بہن کی طرف سےاجازت نہ ہو ، تو اس(بھائی) کے لیے صدقۃالفطر لینا درست ہوگا،لیکن جب تک بہن نے اس پر قبضہ نہ کیاہو اس وقت تک ان لوگوں کا صدقۃالفطر ادا نہیں ہوگاَ۔
۲۔صورت مسئولہ میں بھائی پر بعینہ اسی رقم کا بہن کو حوالہ کرنا ضروری نہیں ہے ،بلکہ تبدیل کر سکتا ہے ،اور اس تبدیلی سے ان لوگوں کے صدقۃالفطر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،باقی مذکورہ رقم اگر بھائی کے پاس بغیر تعدی کے ہلاک ہوجائے،تو اس پر کوئی ضمان نہیں ہے ،اور بھائی کے لیئے صدقۃالفطرکی رقم استعمال کر کے پھر اس کے بقدر اداکرناشرعادرست نہیں ،بلکہ استعمال سے پہلے حوالہ کرنا ضروری ہے،نیز اگر بہن صاحب نصاب ہو تواس کے لئے صدقۃالفطر کی رقم لینا جائز نہیں ،کیونکہ صدقۃ الفطرکا مصرف صرف فقراءومساکین ہیں۔
لمافي شرح المجلة:
"لوكان الوكيل قد أدى الثمن من ماله اِلى البائع كان له أن يرجع به على الموكل لأن يدالوكيل كيدالموكل لكونه عاملاله فيصيرقابضا بقضه حكما.(الفصل الثاني في الوكالة بشراء،المادة:1492،2/805،ط:دار الكتب العلمية )
وفي تكملة فتح المهم:
"أما العملة الأجنبية من الأوراق فهي جنس اخر،فيجوز مبادلتها بالتفاضل،فيجوزبيع ثلاث ربيات باكستانية بريال واحدسعودى".(كتاب المساقات والمزارعة،باب الربا، حكم أوراق النقدية)
وفي شرح المجلة:
"الوديعة أمانة في يدالوديع فإذاهلكت بلاتعدمنه وبدون صنعه وتقصيرفي الحفظ لايضمن."(الفصل الثاني في أحكام الوديعة وضمانها،المادة: 777، 1/431،ط:دار الكتب العلمية )
وفي الدر مع الرد:
(قوله ولو تصدق إلخ)أي الوكيل بدفع الزكاة "إلي قوله)بخلاف ماإذا أنفقهاأولا على نفسه مثلا ثم دفع من ماله فهو متبرع."(كتاب الزكاة ،3/224،ط:رشيدية)
وفي الشامية:
"مصرف الزكاة والعشر ، هو فقير وهو من له أدنى شيء أي دون نصاب أو قدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة."(باب المصرف ،3/333،ط:رشيدية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 173/308،309