کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ بڑا بھائی اپنے طالب علم بھائی سے کہتا ہے کہ آپ کو ہم نے پڑھایا اور آپ کا خرچہ برداشت کیا اور موجودہ سرمایہ ہمارے کاروبار اور محنت کا نتیجہ ہے،لہذا اس میں آپ کا کوئی حصہ نہیں ،اور یہی بات اس نے اپنے دو چھوٹے بھائیوں سے بھی کہی ہے، حالانکہ سارے بھائیوں میں باہم اتفاق ہے علیحدگی نہیں ہوئی ہے تو آیا شرعا اس کا حصہ دینے سے انکار کرنا درست ہے ،یا نہیں؟
وضاحت :بڑے بھائی نے خود محنت مزدوری کرکے پیسہ کمایا پھر اس سے کاروبار کیا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر والد صاحب کے ساتھ مل کر بڑے بھائی نے مال کمایا ہو یا بڑے بھائی نے والد صاحب کے ترکہ کے پیسوں سے تجارت کی ہو تو بڑے بھائی کی حیثیت معاون کی ہوگی، اور چھوٹے بھائی بھی اس مال میں برابر کے شریک ہوں گے، اور بڑے بھائی کا ان کو پڑھانا تبرع (کارِ ثواب )کہلائے گا،جس پر اسے ثواب ملے گا،اور اگر بڑے بھائی نے خود محنت مزدوری کی ہواور اس محنت مزدوری کے پیسوں سے کاروبار بنایا ہوتو چھوٹے بھائیوں کو اس کے مال میں سے حصہ نہیں ملے گا۔
لمافي الفتاوى الخيرية:
سئل في ابن كبير ذي زوجة وعيال له كسب مستقل حصل بسببه أموالا ومات هل هي لوالده خاصة أم تقسم بين ورثته أجاب هي للابن تقسم بين ورثته على فرائض الله تعالى حيث كان له كسب مستقل بنفسه.
وأما قول علمائنا أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط منها اتحاد الصنعة وعدم مال سابق لهما وكون الابن في عيال أبيه فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب. (كتاب الدعوى،292،ط:رشيدية)
وفي الهندية:
أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما مال فالكسب كله للأب إذا كان الابن في عيال الأب لكونه معينا له ألا ترى أنه لو غرس شجرة تكون للأب وكذا الحكم في الزوجين إذا لم يكن لهما شيء ثم اجتمع بسعيهما أموال كثيرة فهي للزوج وتكون المرأة معينة له إلا إذا كان لها كسب على حدة فهو لها.
(كتاب الشركة، الباب الرابع في شركة الوجوه وشركة الأعمال،2339،ماجدية)
۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:169/280