کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے والد گرامی عالم دین تھے، بیمار ہو گئے ،بیماری فالج کی ایسی تھی کہ کروٹ بھی خود نہیں بدل سکتے تھے، انتہائی معذوری کی حالت میں4 سال7 ماہ15دن صاحبِ فراش رہ کر وفات پاگئے، روزے رکھ لیتے تھے، البتہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، کبھی کسی نے وضو کرا دیا تو اشارے سے نماز ادا کر لیتے، ورنہ نہیں،اکثر نمازیں ان کی قضا ہو گئی تھیں، ایک صاحب نے بتایا کہ تم بیٹے ان کی نمازوں کافی نماز فطرہ کے حساب سے فدیہ اداکرو۔
کیا اولاد پر ان کا فدیہ ادا کرنا واجب ہے یا نہیں؟ آج کل کے نرخ کے حساب سے یہ معاملہ لاکھوں روپے بنتا ہے، مفتی صاحب! کیا شریعت میں فطرہ کے علاوہ کوئی ایسی صورت، کوئی ایسا حیلہ ہو سکتا ہے کہ فدیہ بھی ادا ہو جائے اور لاکھوں روپے کی ذمہ داری سے بھی اولاد بری الذّمہ ہو جائے؟
کسی سے سنا تھا کہ ایک مسکین کو ایک وقت کا کھانا کھلانا (گندم کی ایک روٹی ہی سہی) ایک نماز کا فدیہ ہو سکتا ہے، آج کل ہوٹل کی 10 روپے والی روٹی بغیر سالن کے بھی ایک آدمی کو کافی ہو جاتی ہے۔
براہِ کرم ہماری اس مسئلے میں راہ نمائی فرمائیں، جس زمانے میں ان کی وفات ہوئی اس وقت فطرہ کی رقم دو روپے ہوتی تھی، ڈیڑھ کلو آٹا دو روپے کا ملتا تھا۔
کیا ہم اس وقت کے لحاظ سے، جب کہ فی فطرہ دو روپے (نہایت اڑھائی روپے) ہوتا تھا، فدیہ آج کل کے زمانے میں ادا کر سکتے ہیں؟
واضح رہے کہ اولاد پر بغیر وصیت کے والدین کی نمازوں وغیرہ کا فدیہ ادا کرنا واجب نہیں، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر آپ کے والد مرحوم نے اپنی فوت شدہ نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو اور ترکہ میں مال وجائیداد بھی چھوڑا ہو، تو اولاد کے لیے ترکہ کو تین حصوں میں تقسیم کرکے، ایک حصہ سے جتنا فدیہ ادا ہو سکتا ہے، اتنا فدیہ ادا کرنا واجب ہے، اس سے زائد واجب نہیں۔
البتہ اگر تمام ورثاء اپنی خوشی سے بقیہ فدیہ بھی ادا کر دیں، تو یہ اُن کی طرف سے مرحوم پر بہت بڑا احسان ہو گا، یاد رہے کہ ورثاء پر یکمُشت فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ، بلکہ جیسے جیسے کچھ رقم کا انتظام ہو جائے، تو اُس میں سے کچھ فدیہ میں دے دیا جائے۔
او رایک نماز کا فدیہ صدقہ فطر کی طرح دو کلو گندم یا اُس کی جو قیمت بنتی ہے، وہ ہے اور فدیہ میں چوں کہ اصل واجب خود گیہوں ہے، قیمت اُس کے قائم مقام ہے، اس لیے وقتِ ادا، یعنی جس وقت فدیہ ادا کیا جائے، کی قیمت کا اعتبار ہے ، نہ کہ وقتِ وجوب کی قیمت کا، یعنی جس وقت نماز قضا ہوئی تھی اُس وقت کی قیمت کا اعتبار نہیں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی