کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ کیا اﷲ تعالیٰ کو لفظ''
خدا''
سے موسوم کرنا جائز ہے؟
اﷲ تعالیٰ کو لفظ''
خدا''
سے موسوم کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے: دلیل اس کی یہ ہے کہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں اﷲ کا کلام نازل ہوا اور ہر قوم میں اس کی زبان بولنے والے انبیاء معبوث کیے گئے۔(وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ). (سورۃ إبراہیم:٤)
اب ظاہر ہے کہ ان کی طرف جو وحی کی گئی ہو گی اس میں اﷲ تعالیٰ کا نام اسی زبان میں لیا گیا ہو گا، نہ یہ کہ اصل کلام تو ان کی اپنی زبان میں ہوا اور اﷲ تعالیٰ کا نام عربی زبان میں، جس کو وہ سمجھتے بھی ہوں گے۔
مزید برآں قرآن شریف سے تویہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے اسماء حسنی نہ صرف یہ کہ عربی زبان کے ساتھ مختص نہیں، بلکہ وہ انسانوں کی مختلف زبانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات کی زبانوں میں بھی ہیں، ارشاد ربانی ہے(یعنی ہر چیز کو حکمت کے موافق بناتا ہے) صورت بنانے والا ،اس کے اچھے اچھے نام ہیں، سب چیزیں اس کی تسبیح کرتی ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور وہی زبردست حکمت والا ہے۔(هوَ اللَّہُ الْخَالِقُ الْبَارِيءُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْأَسْمَاء الْحُسْنَی یُسَبِّحُ لَہُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ).(سورۃ الحشر:٢٤)
تمام ساتوں آسمان اور زمین اور جتنے ان میں ہیں اس کی پاکی باین کر رہے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں جو تعریف کے ساتھ اس کی پاکی
(قالا یا حالاً) بیان نہ کرتی ہو، لیکن تم لوگ ان کی پاکی بیان کرنے کو سمجھتے نہیں ہو۔
(تُسَبِّحُ لَہُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَن فِیْہِنَّ وَإِن مِّن شَیْْء ٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدَہِ وَلَـکِن لاَّ تَفْقَہُونَ تَسْبِیْحَہُمْ).(سورۃ بنی اسرائیل:٤٤)
ظاہر ہے کہ آسمان وزمین کی تمام مخلوقات، انسان، حیوانات، نباتات، جمادات سب کی زبان ایک عربی ہی تو نہ ہوگی اور آخر وہ اپنی اپنی لغت ہی میں اﷲ کے اسماء حسنی کی تسبیح پڑھتی ہوں گی، معلوم ہوا کہ کوئی بھی نام جوذات باری عزاسمہ کے لیے ناموزوں نہ ہو، خواہ وہ کسی بھی زبان سے تعلق رکھتا ہو، اس سے اﷲ تعالیٰ کو پکارا جاسکتا ہے اور یہ چیز توحید کے منافی ہر گز نہیں، کیوں کہ اسماء کے تعدد سے ذوات کا تعدد لازم نہیں آتا، عنوانات اور تعبیرات کے بدلنے سے معنوں اور معبر عنہ کا نہ بدلنا مسلّمہ امر ہے۔
مندرجہ بالا تحریر کی رو سے اس دلیل کی خود بخود نفی ہو جاتی ہے کہ ”چوں کہ اﷲ تعالیٰ کا ذاتی نام (اسم اعظم) صرف اور صرف اﷲ ہے، اس لیے اس اسم اعظم کا کوئی ترجمہ ہر گز نہیں کیا جاسکتا” کیوں کہ” خدا“ لفظ اﷲ کا ترجمہ نہیں بلکہ یہ دونوں الگ الگ زبانوں میں ایک ذات کے نام ہیں۔
اگر لفظ خدا کو ترجمہ ہی قرار دیا جائے تو یہ لفظ ”رب” کا ترجمہ بنتا ہے لفظ”اﷲ کا نہیں، ( اور ”رب” چوں کہ صفاتی نام ہے لہٰذا اس کا ترجمہ کرنادرست ہے ) کیوں کہ فارسی اور عربی لغات میں دونوں ( یعنی رب اور خدا) کا ایک معنی یعنی”مالک اور سید” اور استعمال کا ایک ہی قاعدہ یعنی ”بغیر اضافت کے ذات باری کے علاوہ کسی اور کے لیے استعمال جائز نہ ہونا۔” ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ عربی کی جدید مرتب شدہ مشہور لغت المعجم الوسیط میں ہے۔(المعجم الوسیط، ص:٣٢١/١، دارالدعوۃ)
''الرب اسم اﷲ تعالٰی: ''ولا یقال الرب فی، غیر اﷲ الا بالاضافۃ و۔۔۔۔۔۔ المالک و۔۔۔۔۔۔ السید الخ.(ص:٣٢١/١، باب الراء)
اور فارسی کی ایک قدیمی لغت، غیاث اللغات میں لفظ”خدا” کے تحت بعینہ یہی معنی لکھے ہیں ”خدا بالضم بمعنی مالک وصاحب، وچوں لفظ خدا ملحق باشد برغیرذات باری تعالی اطلاق نکنسند مگر در صورتکہ بچیزے مضاف شود چوں کہ خدا۔(غیاث اللغات،١٨٥، سعید)
اور ”فارسی عربی” لغت کی طرف رجوع کرنے سے معلوا ہوتا ہے کہ جو معنی لفظ خدا کی فارسی میں ہیں وہی معنی لفظ رب کے ترجمہ فارسی کے موقع پر استعمال کیے گئے ہیں، چناں چہ ملاحظہ ہو ”فرہنگ عربی، فارسی” ص:١٧٧ الرب مالک، صاحب آقا، بزرگوار، مصلح از اسماء خدا وند متعال است (فرہنگ عربی فارسی ترجمہ مسجد الطلاب، انتشارات اسلامی، تہران)
منسلکہ پرچے میں مذکور دوسری دلیل کا جواب شروع کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ”ختام بحث” کے طور پر شیخ عبدالوہاب شعرانی کا قول نقل کر دیا جائے وہ فرماتے ہیں!
اﷲ تعالیٰ کے اسماء جس زبان میں ہوں قابل تعظیم ہیں اس لیے کہ اس کا مصداق خدا تعالی ہی کی ذات ہے ،کیوں کہ عرب بھی کبھی کبھی اﷲ تعالیٰ کے نام کو غیر عربی زبان میں لیتے ہیں۔ مثلاً فارسی میں خدا، حبش میں ”داق” اور فرنگی میں کر یطرذرو” تم ان ناموں کی تحقیق کرو تو معلوم ہو گا کہ خو دان لغات میں بھی یہ نام تعظیم واحترام ہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ (الیواقیت والجواہر ص:٧٢، بحوالہ قاموس الفقہ، ص:١٧٦)
فاصل مضمون نگار نے حرمتِ اطلاق لفظ ”خدا” برذات باری تعالیٰ کے اثبات کے لیے دوسری دلیل یہ دی ہے کہ یہ لفظ مشرکانہ ہے، فرماتے ہیں ”پھر اگر ترجمہ بھی ”خدا”جیسے مشرکانہ لفظ سے کیا جائے، تو وہ حرام د رحرام اور گناہ در گناہ ہو گا” یہ دلیل بھی درست نہیں کیوں کہ لفظ ”خدا” کے معنی کی تحقیق کی جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ مشرکانہ نام ہر گز نہیں چناں غیاث اللغات میں متعدد معتبر حوالوں سے اس کی ترکیب اور وجہ تسمیہ کو یوں ذکر کیا ہے ۔
گفتہ اندکہ خدا بمعنی خود آیندہ است چہ مرکب است از کلمہ ''
خود''
و کلمہ ''
آ ''
کہ صیغہ امراست از آمدن، وظاہر است کہ امر بترکیب اسم معنی اسم فاعل پیدا مے کند، وچوں حق تعالی بظہور خود بدیگرے محتاج نیست لہذا بایں صفت خوانند، از رشیدی وخیابان وخان آرزو ودر سراج اللغات نیز از علامہ دوانی وامام فخر الدین رازی ہمیں نقل کردہ۔
ترجمہ:”لغویین کا کہنا ہے کہ ”خدا” کے معنی ” آپ سے آپ آنے والا کے ہیں کیوں کہ یہ لفظ ”خود” اور ”آ” سے مل کر بنا ہے اورکلمہ ”آ” آمدن مصدر سے امر ہے اور امر اسم سے مل کر اسم فاعل کے معنی پیدا کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ چوں کہ اپنے وجود اور ظہور میں کسی کے محتاج نہیں ہیں اس لیے ان کو اس طور پر پکارتے ہیں، مشہور لغویین، رشیدی، خیابان، خان آرزو اور محقق دوانی وعلامہ رازی سے سراج اللغات میں یہی نقل کیا گیا ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ لفظ مشرکانہ نہیں بلکہ خدا کے ازلی ہونے اور اپنے وجود میں غیر کا متحاج نہ ہونے جیسے اسلامی عقائد پر دلالت کرتا ہے اور یہ اپنے معنی کے لحاظ سے لفظ ”واجب الوجود” کے قریب قرب ہے اور لفظ واجب الوجود کا اطلاق ذات والا جل شانہ پر متکلمین بکثرت کرتے ہیں اور علماء نے ان پر آج تک نکیر یا گرفت نہیں کی ۔
الغرض ذات باری تعالیٰ عزاسمہ کو لفظ”خدا” سے پکرانا جائز ہے جیسا کہ مندرجہ بالا تفصیل سے ثابت ہوا، اور اس میں کسی قسم کا گناہ یا کوئی حرج نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی