کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں ایک آدمی نے چائے او رپراٹھے کے ٹوکن دوسرے آدمی کو دیے کہ وہ اس پر ناشتہ کر لے، جب کہ اوّل آدمی انہی ٹوکنوں پر ناشتہ کرچکا تھا اور ٹوکن جمع نہیں کروائے تھے اور دوسرے کو اس وقت بتایا کہ وہ بھی ابھی انہی ٹوکنوں پر ناشتہ کرچکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ دوسرے آدمی کی لاعلمی کی وجہ سے یا دعوت سمجھ کر استعمال کرنے کی وجہ سے ضمان کس پر آئے گا اور گناہ گار کس کو ٹھہرایا جائے گا؟
صورت مسئولہ میں جب دوسرے آدمی نے دوبارہ اسی ٹوکن پر ناشتہ کیا، تو بعد میں معلوم ہو جانے پر رقم کی ادائیگی اسی کی ذمے لازم ہوگی، البتہ پہلے آدمی کے لیے اس طرح کرنا شرعاً جائز نہیں تھا، لہٰذا اس کو چاہیے کہ اپنے کیے ہوئے پر ندامت کے ساتھ توبہ واستغفار کرکے آئندہ اس طرح قدم نہ اٹھائے، ورنہ قیامت کا دن بڑا سخت ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی