کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں ایک ملک کی مختلف کرنسیوں کا باہم تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ جائز ہے یا نہیں؟ اگر ناجائز ہے تو کیوں؟ نیز مروجہ کرنسی نقدی (سونا چاندی) کے حکم میں ہے یا فلوس نافقہ کے حکم میں؟ ایک ملک کی مختلف کرنسیاں مثلاً سو ،پانچ سو، پانچ ہزار کے نوٹ جنس واحد ہے یا اجناس مختلفہ؟
مختلف ممالک کی کرنسیوں کا باہم تبادلہ کمی وبیشی کے ساتھ جائز ہے یا نہیں؟ امید ہے مفصل ومدلل تحقیق سے مطلع فرمائیں گے۔
واضح رہے کہ ایک ملک کی کرنسی جنس واحد ہے، نوٹ کے چھوٹے بڑے ہونے سے جنس مختلف نہیں ہوتی اور کرنسی کے بارے میں راجح قول یہی ہے کہ فلوس نافقہ کے حکم میں ہے، سونے چاندی کے حکم میں نہیں ہے، نیز امام مالک او رامام محمد رحمہما الله فلوس میں تفاضل کو حرام قرار دیتے ہیں اور راجح بھی یہی ہے، بلکہ غیر معین ہونے کی صورت میں حضرات شیخیں کا بھی یہی موقف ہے ، لہٰذا کرنسی نوٹوں سے متعلق اس راجح قول کے مطابق ملکی کرنسی کا باہم تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ جائز نہ ہو گا اور عدم جواز کی علت ربا ہے، جو کہ حرام ہے۔
مختلف ممالک کی کرنسیاں اجناس مختلفہ ہیں، کیوں کہ موجودہ دور میں کرنسی نوٹوں سے ان کی ذات او رمادہ مقصود نہیں ہوتا، بلکہ کرنسی نوٹ آج کل قوت خرید کے ایک مخصوص معیار کا نام ہے اور ہر ملک نے اس سلسلے میں الگ معیار مقرر کیے ہیں، مثلاً پاکستان میں روپیہ، سعودی عرب میں ریال وغیرہ کا معیار الگ الگ ہے، جو ملکوں کے مختلف ہونے سے بدلتا رہتا ہے ،لہٰذا جب مختلف ملکوں کی کرنسیاں اجناس مختلفہ ہیں، تو ان کی بیع تفاضل کے ساتھ درست ہو گی۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی