کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ عبداللہ نامی ایک شخص زید کے پاس آیا اور اپنے علاقے کی زیر تعمیر مسجد کے لئے اس سے چندہ مانگا،تو زید نے اپنی بہن جو کہ غنی تھی اس سے جاکر کہا کہ فلاں شخص جو چندہ مانگنےآیا تھا وہ ہمارے موجودہ محلے کے امام صاحب کے گاؤں کی زیر تعمیر مسجد کے لئے چندہ مانگنے آیا تھا تو اس بہن نے زید کو 50,000/=(پچاس ہزار روپے) دئیے،لیکن وہ چندہ مانگنے والا تو چلا گیا تھا۔ اب زید امام کے پاس حاضر ہوا کہ یہ رقم آپ کے گاؤں کی زیر تعمیر مسجد کے لئے بہن سے لایا ہوں، تو امام صاحب نے بتایا کہ تم کس مسجد میں دینا چاہتے ہو، کیونکہ ہمارے گاؤں میں تو اس وقت تین مساجد زیر تعمیر ہیں، تو زید نے کہا میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ آپ جہاں مرضی ان تینوں میں دے دیں۔تو اصل سوال یہ پوچھنے والا ہے کہ زید نے جب بہن سے چندہ مانگا تھا اس وقت چونکہ عبداللہ نامی شخص جس مسجد کی طرف سے چندہ لینے آیا تھا وہ حاضر ہوا تھا،لیکن کیا اب یہ رقم دوسری جگہ جس کی دل میں نیت نہیں تھی وہاں دی جاسکتی ہے؟
واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں اگر زید کی ہمشیرہ نے دیہات کی کسی بھی زیر تعمیر مسجد کے لئے رقم دی ہے ،تو زید اس رقم کو دیہا ت کی کسی بھی مسجد میں دے ،تو یہ جائز ہے۔لیکن اگر زید کی ہمشیرہ نے کسی متعین مسجد کے لئے اپنے بھائی کو رقم دی ہے تو زید اس رقم کو اسی مسجد میں استعمال کرے گا،کسی اور مسجد میں استعمال کرنا جائز نہیں۔البتہ اگر اپنی بہن سے دوبارہ دیہات کی کسی اور مسجد کے لئے اجازت لے لے ،تو دوسری مسجد میں بھی استعمال کرسکتا ہے۔
لمافي رد المحتار:
"علٰی أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفین واجبة".(کتاب الوقف:6/683،ط:رشیديه).
وفيه أیضاً:
قوله:(عند الإمام الثاني)……ولایجوز نقله ونقل ماله إلٰی مسجد آخر،سواء کانوا یصلون فيه أو لا،وهو الفتویٰ.
(کتاب الوقف:6/550،رشیدية).
وفي البحر:
وقال ابو یوسف:ولایجوز نقلہ ونقل مالہ إلٰی مسجد آخر، سواء کانوا یصلون فيه أولا، وهو الفتویٰ.(کتاب الوقف:5/421،ط:رشیدية).
وفي حاشية إبن عابدین:
"الوکیل إنما یستفید التصرف من الموکل وقد أمرہ بالدفع إلٰی فلان فلایملک الدفع إلٰی غیرہ،کما لوأوصٰی لزید بکذا لیس للوصي الدفع إلٰی غیرہ،فتأمل".(کتاب الزکاۃ:3/224،ط:رشیدية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:170/73